پشاور: مشعال خان کے بھائی ایمل خان نے اپنی وکلا ٹیم سے مشاورت کے بعد کہا ہے کہ وہ ایبٹ آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کے فیصلے کو چیلنج کریں گے۔

ایمن خان نے اپنے وکلا کے ساتھ پشاور ہائی کورٹ میں ایک ملاقات منعقد کی جس میں انہوں نے اے ٹی سی کے فیصلے کے حوالے سے اپنے گھر والوں کے نقطہ نظر کے بارے میں وکلا کی ٹیم کو آگاہ کیا۔

پشاور ہائی کورٹ میں میڈیا نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے ایمل خان نے کہا کہ ان گھر والے ایبٹ آباد اے ٹی سی کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے اس فیصلے کے چند لمحوں بعد ہی اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا‘۔

مزید پڑھیں: مشال قتل کیس: ملزمان کو سزاؤں کے خلاف مذہبی جماعتوں کا احتجاج

ایمل خان نے بتایا کہ ان کے وکلا کی ٹیم نے اس حوالے سے اپنا مسودہ تیار کر لیا ہے جسے کل (14 فروری کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔

مشعال خان قتل کیس میں ایمل خان کی وکلا ٹیم کے ایک اہم اور سینئر وکیل ایاز خان کا کہنا تھا کہ وہ پُر امید ہیں کہ انہیں پشاور ہائی کورٹ سے اس سلسلے میں انصاف لے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 93 صفحات پر مشتمل اے ٹی سی کے اس فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ درخواست گزار نے ملزم کو مجرم ثابت کیا اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی۔

سینئر وکیل نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس پورے فیصلے کو چیلنج کریں گے جس میں 26 لوگوں کو بری کرنے، 30 دیگر افراد کو کم سزا دینے جبکہ مرکزی ملزم عمران علی کو بری کرنے کا معاملہ شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مشال قتل کیس کے فیصلے کے خلاف جے یوآئی (ف) کا احتجاج

ایمل خان کے وکلا کی ٹیم کے ایک اور وکیل فضل خان نے اس حوالے سے کہا کہ جن 26 افراد کو جیل سے رہا کیا گیا انہیں مذہبی جماعتوں کی جانب تقریبات منعقد کی گئیں تھی جبکہ انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے مشعال کو قتل کیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اس اپیل میں ان ویڈیو کلپس کو بھی شامل کریں گے جن میں ملزمان نے مشعال خان کے قتل کا اعتراف کیا۔

ایاز خان نے اے ٹی سی کے فیصلہ کے کچھ نکات پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ مشعال خان کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس میں تمام گرفتار افراد نے کردار ادا کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اے ٹی سی نے 26 ملزمان کو عدم ثبوتوں کی بنا پر رہا کر دیا تھا تاہم ہمیں امید ہے کہ مشعال کو پشاور ہائی کورٹ سے انصاف ملے گا۔

خیال رہے کہ 7 فروری کو ایبٹ آباد کی اے ٹی سی عدالت نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ 26 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

مشال خان قتل کیس

یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔

مشال کی قتل کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر جاری ہوئی تو پورے ملک میں غم و غصہ پیدا ہوا جس کے بعد پاکستان میں توہین کے قانون کے حوالے سے نئی بحث کا بھی آغاز ہوگیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر میں کیا تھا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کی گئی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔

مشال خان کے والد قیوم خان، ان کے دوست اور اساتذہ نے بھی اے ٹی سی کے سامنے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے تھے۔

اے ٹی سی نے پانچ ماہ اور 10 دن کی سماعت کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا اور 7 فروری کو فیصلہ سنایا جائے گا۔

یاد رہے کہ مشعال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں