اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف زیر سماعت ایون فیلڈ ریفرنس میں بیان قلمبند کرانے والے نیب کے غیر ملکی گواہ رابرٹ ریڈلے کا کہنا ہے کہ کیلبری فونٹ 2007 سے پہلے عام عوام کے لئے دستیاب نہیں تھا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے پاناما پیپرز لیکس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے دیئے گئے فیصلے کی روشنی میں دائر ریفرنسز میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کی عدالت میں حاضری سے عارضی استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی معاون وکیل عائشہ حامد نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کے ضمنی ریفرنسز پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ضمنی ریفرنسز میں کوئی نئے اثاثے یا شواہد سامنے نہیں لائے گئے۔

عائشہ حامد نے اپنے دلائل میں کہا کہ ضمنی ریفرنسز میں صرف چند نئی ٹرانزیکشنز کو شامل کیا گیا اور ان میں 20 نئے گواہان کو شامل کر لیا گیا ہے تاہم ضمنی ریفرنسز کارروائی کو طول دینے کی کوشش ہیں۔

عائشہ حامد کا مزید کہنا تھا کہ مجھے دو گواہان سے جرح کی تیاری کے لیے 4 دن لگ گئے ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کہ ایک دن میں 17 گواہان کا بیان قلمبند کردیا جائے۔

نواز شریف کی وکیل نے موقف اپنایا کہ ہم کوئی نیب تو نہیں ہیں کہ ایک دن میں اتنے گواہان کے بیانات قلمبند کر لیں جبکہ ان کے حوالے سے ہمیں پہلے آگاہ بھی نہیں کیا گیا لہٰذا ان گواہان سے جرح کی تیاری کے لیے وقت درکار ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ضمنی ریفرنسز میں نئے شواہد کو شامل کیا گیا اور ان میں ملزمان کی آمدنی کے ظاہر ذرائع سے متعلق دستاویزات کو بھی حصہ بنایا گیا۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 6 ہفتوں میں عبوری ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاہم یہی وجہ تھی کہ نیب کو ضمنی ریفرنسز دائر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر 2 ضمنی ریفرنسز پر نواز شریف کی وکیل عائشہ حامد کے اعتراضات پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا جائے گا۔

احتساب عدالت میں سماعت کچھ کو چند گھنٹوں کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔

تاہم سماعت کے دوبارہ آغاز میں ایون فیلڈ ریفرنس میں غیر ملکی گواہ کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے قلمبند کیا گیا۔

نواز شریف کے وکیل نے بیان قلم بند کرانے کےلئے غیر ملکی گواہ رابرٹ ریڈلے کی طرف سے نوٹس پر انحصار کرنے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان نوٹس کی کاپی ہائی کمیشن میں موجود ہمارے نمائندے کو بھی فراہم کی جائے۔

ویڈیو لنک سے براہ راست رابرٹ ریڈلے نے عدالت کو بتایا کہ انگلینڈ میں یہ معمول کی بات ہے اور کسی بھی کیس میں بطور سابق ایکسپرٹ گواہی کے دوران نوٹس پر انحصار کرنا غلط نہیں سمجھا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ کے نمائندے کو نوٹس کی کاپی فراہم کرنے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

مریم نواز کے دستاویزات میں کیلبری فونٹ کے استعمال کے حوالے سے نیب کے گواہ کا کہنا تھا کہ مائیکروسافٹ کے آپریٹنگ سسٹم وسٹا ورژن بیٹا ون میں کیلبری ٹیسٹ کے لئے مخصوص ہائی لیول آئی ٹی ایکسپرٹس کو فراہم کیا تھا۔

خواجہ حارث نے ان سے سوال کیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ 2007 سے پہلے 10 ہزار لوگ کیلبری فونٹ استعمال کررہے تھے تو انہوں نے کہا کہ 10 ہزار لوگ فونٹ استعمال نہیں کررہے تھے بلکہ وہ سافٹ ویئرٹیسٹ کررہے تھے جبکہ عام عوام کے لیے یہ 31 جنوری 2007 کو ہی سامنے آیا تھا۔

نواز شریف کے وکیل نے رابرٹ ریڈلے سے جرح کے دوران ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس جو کاغذات موصول ہوئے ان میں شیڈول موجود تھا جس پر رابرٹ ریڈلے نے انکار کیا۔

تاہم خواجہ حارث کی نشاندہی پر ان کو وہ صفحہ ملا جس پر انہوں نے عدالت سے معذرت کی کہ یہ انکے لیے غیر متعلقہ تھا اس لیے ان کی نظر سے نہیں گزرا۔

بعد ازاں نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس پر عدالت نے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اورفلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنسزکی سماعت یکم مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے استغاثہ کے 4، 4 گواہان کو طلب کر لیا گیا۔

جس پر انحصار کیا جارہا ہے وہی اہم موڑ ثابت ہوگا،مریم نواز

علاوہ ازیں مریم نواز نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جانتی تھیں کہ رابرٹ ریڈلے جھوٹ نہیں بول سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جس شخص پر انحصار کیا جارہا ہے وہی اہم موڑ ثابت ہوگا اور وہ اس دن کا انتظار کررہی تھیں جب سچ سامنے آئے گا۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ریفرنس: احتساب عدالت میں ہائیکورٹ کا حکم نامہ پیش

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: شریف خاندان کی درخواست پر احتساب عدالت کی سماعت ملتوی

3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔

16 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔

22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔

23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے تھے۔

30 جنوری 2018 کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر 3 مختلف ریفرنسز میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر نیب کے ضمنی ریفرنس سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔

نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے وکلا کی عدم موجودگی کی وجہ سے 6 فروری کو نیب ریفرنسز کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

بعد ازاں 13 فروری کو ہونے والی سماعت معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر سوگ کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔

یاد رہے کہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی احتساب عدالت میں حاضری سے استثنیٰ حاصل کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی جسے رواں ماہ 15 فروری کو عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 21 فروری کو استثنیٰ کی درخواست مسترد ہونے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ اہلیہ کی بیماری کو ملزم کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کا جواز نہیں ٹھہرایا جا سکتا

تبصرے (0) بند ہیں