اسلام آباد: احتساب عدالت نے نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی مکمل رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واجد ضیاء کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام دستاویزات کو ایک ایک کرکے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، سماعت کے دوران نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران پاناما پیپرز کیس میں بنائی گئی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا، جس پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے جو مواد اکھٹا کیا گیا، اسے ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ کے کسی عدالتی فیصلے میں نواز شریف، مریم، صفدر کا نام شامل نہیں،نیب گواہ

مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی جلد 2 میں گواہوں اور اس مقدمے کے ملزمان کے قلمبند کیے گئے بیانات کو کارروائی کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ ہر جلد میں 20 سے 25 صفحات پر مشتمل تجزیہ اور سمری لکھی گئی ہے۔

امجد پرویز نے کہا کہ اس نام نہاد تجزیے کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنانا اس طرح ہے جیسے یہ چالان جمع کرارہے ہوں اور واجد ضیاء اس معاملے میں گواہ ہیں کوئی تفتیشی افسر نہیں جبکہ قانون کے مطابق تحقیقاتی رپورٹ کو ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔

اس موقع پر نیب استغاثہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ صرف رپورٹ نہیں بلکہ ثبوت ہیں اور اسے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے میں حرج نہیں جبکہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے سربراہ کو بااختیار بنایا تھا اور عدالت میں واجد ضیاء بطور تفتیشی افسر نہیں بلکہ گواہ پیش ہوئے ہیں۔

سماعت کے دوران واجد ضیاء کی جانب سے عدالت میں بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر مجھے جے آئی ٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا اور شریف خاندان کی لندن میں جائیداد کب اور کیسے بنی ہم نے اس کی تحقیقات کی تھی۔

واجد ضیاء نے بتایا کہ لندن جائیداد کس کی ملکیت ہے اور اس کا پیسہ کہاں سے آیا تھا، ان سب کی تحقیقات کی ذمہ داری سپریم کورٹ نے ہمیں دی تھی اور اس حوالے سے اعلیٰ عدالت کے حکم پر تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی۔

عدالت کو اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو چند سوالات تلاش کرنے اور گلف اسٹیل، قطری خط، ہل میٹل کی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان سوالات میں ملزمان کی رقوم کی جدہ، قطر اور برطانیہ منتقلی سے متعلق بھی سوال تھا جبکہ نواز شریف کے بچوں کے پاس کمپنیوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا اس حوالے سے بھی سوال موجود تھا۔

انہوں نے بتایا کہ عدالت کی جانب سے دیئے گئے اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا تھا کہ نواز شریف اور ان کے زیر کفالت افراد کے آمدن سے زائد اثاثے کیسے بنے؟

یہ بھی پڑھیں: کیلبری فونٹ 2007 سے پہلے عام عوام کیلئے دستیاب نہیں تھا، نیب گواہ

اس موقع پر نواز شریف کے وکیل کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراض پر مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے بھی پیش کیے گئے جبکہ عدالت سے اس رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کی استدعا کی گئی۔

جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے جے آئی ٹی رپورٹ کی مکمل رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واجد ضیاء کو اکھٹی کی گئی دستاویزات ایک ایک کرکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔

نواز شریف کے خلاف ٹرائل میں 2 ماہ کی توسیع

یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف زیر سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ جبکہ اسحٰق ڈار کے خلاف 3 ماہ کی توسیع کردی تھی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے کی روشنی میں نیب ریفرنسز کے تحت ٹرائل کو مکمل کرنے کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا گیا تھا، جو رواں ماہ 13 مارچ کو ختم ہونے والا ہے۔

سماعت کے دوران معزز جج کی جانب سے استفسار کیا گیا تھا کہ کیا شریف خاندان کی جانب سے ٹرائل کو طول دینے کے لیے تاخیری حربے استعمال کیے گئے؟

جس پر وکیل نیب نے بتایا کہ کسی فریق نے بھی ٹرائل کو طول دینے کے لیے تاخیری حربے استعمال نہیں کیے، جس پر عدالت نے نواز شریف کے خلاف ریفرنس کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ اضافہ کردیا تھا۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: احتساب عدالت میں ہائیکورٹ کا حکم نامہ پیش

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ریفرنس: شریف خاندان کی درخواست پر احتساب عدالت کی سماعت ملتوی

3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔

16 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔

22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔

23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے تھے۔

30 جنوری 2018 کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر 3 مختلف ریفرنسز میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر نیب کے ضمنی ریفرنس سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔

نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے وکلا کی عدم موجودگی کی وجہ سے 6 فروری کو نیب ریفرنسز کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

بعد ازاں 13 فروری کو ہونے والی سماعت معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر سوگ کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔

نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کی کارروائی سے 2 ہفتوں کے لیے استثنیٰ حاصل کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر 15 فروری کو عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں 19 فروری کو ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو ریکارڈ سمیت عدالت طلب کیا تھا، جس کے بعد وہ 22 فروری کو عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم بیان ریکارڈ نہیں کراسکے تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

SHARMINDA Mar 08, 2018 01:57pm
If covict was a common Pakistani, would have been jailed by now for not providing evidence for even making few thousands rupees from unknown sources.