میران شاہ: وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کی ایجنسی شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کی جانب سے لڑکیوں کے 2 اسکولوں پر بم حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں اسکولوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

علاوہ ازیں عسکریت پسندوں نے بڑے پیمانے پر دھمکی آمیز پمفلٹ بھی تقسیم کیے جس میں مقامی افراد کو لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں نہ بھیجنے کی واضح ہدایت درج تھی۔

اطلاعات کے مطابق مقامی افراد کا کہنا ہے کہ میر علی کی تحصیل ہسکول میں قائم طالبات کے مڈل اسکول پر بم حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں اسکول کی بیرونی دیوار تباہ ہوگئی۔

واضح رہے کہ دو روز قبل بھی اسی علاقے میں طالبات کے ایک اور مڈل اسکول کو بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا جس سے اسکول کی عمارت کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان نے بچوں کے اسکول جانے پر پابندی لگا دی

تاہم اس بارے میں جب مقامی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بم حملے سے متعلق لاعلمی کا اظہار کردیا۔

دوسری جانب ’اتحاد المجاہدین شمالی وزیرستان‘ نامی عسکری گروپ کی جانب سے دھمکی آمیز پمفلٹ تقسیم کیا گیا، جس میں درج تھا کہ ’ہم علاقے میں لڑکیوں کا اسکول جانا برداشت نہیں کریں گے‘، مذکورہ پمفلٹ قبائلی علاقے میں قائم طالبات کے متعدد اسکولوں کو بھی موصول ہوا۔

علاوہ ازیں حکومت کے حمایت یافتہ قبائلی عمائدین کو بھی پمفلٹ موصول ہوئے جس میں انہیں حکومتی پالیسیوں کی حمایت سے باز رہنے کی دھمکی دی گئی۔

مزید پڑھیں: وزیرستان : نو تعمیر شدہ سرکاری اسکول تباہ

خیال رہے کہ طالبات کی درسگاہوں پر ہونے والے بم حملے اور متنازع پمفلٹس کی تقسیم سے ان حکومتی دعووں پر سوالات اٹھ گئے ہیں جس میں ان کا کہنا تھا کہ فاٹا اور بالخصوص شمالی وزیرستان کو عسکریت پسندوں سے پاک کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ فاٹا میں گزشتہ کچھ عرصے میں ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں میں تیزی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔

فاٹا کے ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن اور پاک فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں آرمی پبلک اسکول اور کیڈٹ کالجز کا نیٹ ورک بھی قائم کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹا میں خواتین کی تعلیمی شرح انتہائی کمتر سطح پر

یاد رہے کہ آپریشن ضرب عضب سے قبل عسکریت پسندوں کی جانب سے شمالی وزیرستان اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں طالبات کی درسگاہوں کو بم سے اڑانے کا سلسلہ بھی جاری تھا، جس کے سبب فاٹا میں جون 2014 میں اسکولوں اور کالجز میں طالبات کی تعداد میں تشویشناک حد تک کمی دیکھنے میں آئی تھی۔

واضح رہے کہ آپریشن ضربِ عضب سے قبل، 10 سال کے عرصے میں طالبات کے 1500 اسکول بم دھماکے سے تباہ کیے گئے اور صرف ایک اسکول میں تعلیم کا سلسلہ جاری تھا جو انتہائی سیکیورٹی کے علاقے میں قائم تھا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 10 مئی 2018 کو شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں