کوئٹہ: مسجد دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 4 ہوگئی

اپ ڈیٹ 26 مئ 2019
پولیس نے رحمانیہ مسجد سمیت 40 مساجد کو پہلے ہی حساس قرار دیا تھا — فائل فوٹو/ ڈان نیوز
پولیس نے رحمانیہ مسجد سمیت 40 مساجد کو پہلے ہی حساس قرار دیا تھا — فائل فوٹو/ ڈان نیوز

کوئٹہ : صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے پشتون آباد میں قائم مسجد میں ہونے والے دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 4 ہوگئی۔

بولان میڈیکل کالج میں موجود ذرائع نے بتایا کہ دھماکے کے نتیجے میں جسم شدید جھلسنے کی وجہ سے ایک زخمی 24 مئی کی رات زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی جانب سے نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے تحقیقات کا آغاز کیا جاچکا ہے۔

سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ دھماکے کے نتیجے میں شدید نقصان پہنچنے کے بعد مسجد کو تاحکمِ ثانی سیل کردیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ 24 مئی بروز جمعہ کو مسجد میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری کسی گروہ یا تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ: نمازِِ جمعہ کے وقت مسجد میں دھماکا، 3 افراد جاں بحق 19 زخمی

کوئٹہ کی اکثر مساجد میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں لیکن رحمانیہ مسجد میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔

تاہم نمازِ جمعہ کے لیے مسجد میں مکمل سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔

دھماکے میں جاں بحق رحمانیہ مسجد کے امام مولانا عطا اللہ رحمانی کے بیٹے مولانا رحمانی نے دعویٰ کیا کہ انہیں 2 ہفتے قبل دھمکیاں موصول ہوئیں تھیں اور اس حوالے سے پولیس کو آگاہ کردیا گیا تھا۔

مولانا رحمانی نے کہا کہ انہوں نے والد کی تعزیت کے لیے گھر آنے والے وزیر صوبائی اسمبلی مبین خلجی کو بتایا تھا کہ متعلقہ حکام کو آگاہ کرنے کے باوجود مسجد میں اور اس کے ارد گرد کوئی سیکیورٹی انتظامات نہیں کیے گئے۔

تاہم ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس عبدالرزاق چیمہ نے بتایا کہ پولیس نے رحمانیہ مسجد سمیت 40 مساجد کو پہلے ہی حساس قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مسجد انتظامیہ کو آگاہ کیا گیا تھا کہ پولیس اور رضاکار مشترکہ طور پر سیکیورٹی فرائض سرانجام دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں پولیس موبائل کے قریب دھماکا، 4 اہلکار شہید

عبدالرزاق چیمہ نے کہا کہ مسجد کے باہر پولیس اہلکار تعینات تھے جبکہ اندرونی سیکیورٹی مسجد کے رضاکاروں کی ذمہ داری تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کوئٹہ میں موجود 618 مساجد میں سے 80 کو سیکیورٹی فراہم کررہی ہے۔

ڈی آئی جی نے کہا کہ 'تمام 618 مساجد کو سیکیورٹی فراہم کرنا پولیس کے لیے ممکن نہیں'۔

دوسری جانب سی ٹی ڈی عہدیدار نے دعوی کیا کہ امام کی کرسی کے نیچے دھماکا خیز مواد نصب کرنے میں مسجد کے اندر موجود کوئی شخص ملوث ہوسکتا ہے۔

تاہم بم دھماکے کی تحقیقات جاری ہیں اور تمام حساس مساجد کی سیکیورٹی سخت کردی گئی۔


یہ خبر 26 مئی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں