بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جانی چاہیے، تحقیق

اپ ڈیٹ 16 جولائ 2019
ولسن سینٹر کی نادیہ نیوی والا نے پاکستان میں تعلیم کے مسئلے پر اپنی رپورٹ ’پاکستان میں تعلیمی بحران: اصل کہانی‘ کے نام سے جاری کی۔
— فائل فوٹو: اے ایف پی
ولسن سینٹر کی نادیہ نیوی والا نے پاکستان میں تعلیم کے مسئلے پر اپنی رپورٹ ’پاکستان میں تعلیمی بحران: اصل کہانی‘ کے نام سے جاری کی۔ — فائل فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: پاکستان کے تعلیمی نظام پر نئی تحقیق کے مطابق پاکستان میں کئی بچے اسکول میں کئی سال گزارنے کے باوجود ایک جملہ تک نہیں پڑھ پاتے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ولسن سینٹر کی نادیہ نیوی والا نے پاکستان میں تعلیم کے مسئلے پر اپنی رپورٹ ’پاکستان میں تعلیمی بحران: اصل کہانی‘ کے نام سے جاری کردی۔

اپنی رپورٹ میں انہوں نے نشاندہی کی کہ ایک کروڑ 70 لاکھ بچے پرائمری تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ 50 لاکھ نہیں کرتے۔

ان کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو بچے اسکول جاتے ہیں وہ بھی زیادہ کچھ سیکھ نہیں پاتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کئی بچے اسکول میں سالوں گزارنے کے باوجود ایک جملہ تک نہیں پڑھ سکتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک عالمی مسئلہ ہے مگر پاکستان میں صورتحال بدترین ہے کیونکہ ہمارے یہاں غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے‘۔

انہوں نے برٹش کونسل سروے کی رپورٹ کا حوالہ دیا جس کے مطابق پنجاب کے 94 فیصد انگریزی تعلیم دینے والے نجی اسکولوں میں انگریزی نہیں بولی جاتی۔

ملک کے وزیر اعظم عمران خان سے مادری زبان میں تعلیم دینے کی حوصلہ افزائی کرنے کا کہتے ہوئے نادیہ نیوی والا کا کہنا ہے کہ تعلیم کے لیے چندے دینے والوں کو بھی غیر ملکی زبان میں چندہ مانگنے والوں کے پروگرامز سے دور رہنا چاہیے۔

مصنفہ کی تجویز

اسکولوں میں بچوں کی پڑھنے کی صلاحیت کا سالانہ موازنہ کیا جانا چاہیے۔

تعلیم حاصل نہ کرنے والوں کو متبادل تعلیمی پروگرام کے ذریعے اسکول خواندگی پروگرامز کے ذریعے بچوں اور بڑوں سب کو پڑھنا سکھانا چاہیے۔

نصاب کو آسان بنا کر اسے بچے کے مطابق بنانا چاہیے، ابتدائی کلاسوں اور پرائمری تعلیم کو مادری زبان میں پڑھانا چاہیے جس کی کتابیں بھی اس ہی زبان میں ہوں۔

اعلیٰ تعلیم کئی زبانوں میں ہونی چاہیے انگریزی پر موجودہ زور سے بچوں میں نقل کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

سائنس کے مضامین میں انگریزی پر زور دیا جاتا ہے مگر طالب علموں کو ان کی زبان میں جواب دینے کی اجازت دینے سے سوشل سائنسز میں اسکالرشپ کے معیار میں اضافہ ہوگا۔

سب سے زیادہ ترجیح پرائمری اسکولوں میں صرف خواتین اساتذہ ہونے کی ضرورت پر دی جانی چاہیے۔

دس سے 16 سال کے اسکول نہ جانے والوں بچوں کے لیے پاکستان میں بڑے پیمانے پر تعلیمی پروگرام کی ضرورت ہے 11ویں اور 12ویں جماعت اور ڈگری کالجز کو بھی پرائمری اسکول اور یونیورسٹی کی طرح توجہ دی جانی چاہیے۔

اساتذہ کا انتخابات میں استعمال بند ہونا چاہیے، الیکشن کمیشن کو اس کام کے لیے متبادل افراد ڈھونڈنے چاہیئں۔

عدالتوں کو چاہیے کہ کنٹریکٹ پر آنے والے اساتذہ کو پینشن لینے والے مستقل سرکاری ملازم بنانا بند کرے کیونکہ اس سے تعلیمی نظام میں کرپشن، کارکردگی میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سیاستدانوں اور سیکریٹری تعلیم سے اساتذہ کی پوسٹنگ اور تبادلوں کے اختیارات لے لیے جانے چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں