شامی جنگجو بھرتی کرنیکا الزام: 19 سالہ ڈچ لڑکی گرفتار

ہیگ: ہالینڈ کے حکام نے شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف جاری بغاوت میں باغیوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے جنگجو بھرتی کرنے کے الزام میں ایک 19 سالہ ڈچ لڑکی کو گرفتار کر لیا ہے۔
پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر کے ترجمان نکولیٹ اسٹوئل نے اے ایف پی کو بتایا کہ لڑکی کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انہیں دو ہفتے کے لیے ریمانڈ لے لیا گیا ہے جہاں ان سے تفتیش جاری ہے۔
شام میں جاری بغاوت میں ہالینڈ سے صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے کے لیے بھرتی ہونے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ہالینڈ کی حکومت کو شدید خدشات لاحق ہیں، اپریل میں برطانیہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جنگ زدہ ملک میں ہالینڈ کے 107 شہری حکومت کے خلاف بغاوت میں باغیوں کا ساتھ دینے کے لیے شریک ہیں۔
پولیس نے لڑکی کو ہیگ کے مشرق میں واقع چھوٹے سے شہر زوئیتے میر سے اس بدھ کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب متعدد خاندانوں نے یہ شکایت کی تھی کہ ان کے رشتے دار شام میں لڑنے کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔
اسٹوئل نے بتایا کہ کچھ شکایتوں میں شام میں جہاد کے نام پر بھرتی کرنے والے مبینہ جنگجوؤں کے نام بھی بتائے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گرفتار کی گئی لڑکی کو دو ہفتوں تک سلاخوں کے پیچھے رکھا جائے گا اور اس بات کا فیصلہ جج کریں گے کہ ان کے خلاف مقدمہ آگے چلانا ہے یا نہیں۔
'اس موقع پر انہیں صرف اپنے وکیل سے بات چیت کی اجازت ہے'۔
اس دوران حکام نے شام میں جہاد کے نام پر نوجوانوں کو بھرتی کرنے والے مسلمانوں کے خلاف بھی بڑے پیمانے پر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے اور ہمیں سب سے پہلے ان کی حفاظت یقینی بنانی ہے کیونکہ وہ ایک خطرناک علاقے کا رخ کر رہے ہیں۔
پبلک پراسیکیوٹر نے کہا کہ حالانکہ حکام ان جہادیوں کو ملک سے نکلنے سے نہیں روک سکتے لیکن وہ قانوناً بھرتی کے اس عمل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حق رکھتے ہیں کیونکہ یہ عمل ہمارے قانون کے خلاف ہے، اس جرم کے تحت کسی شخص کو جیل میں چار سال قید یا 78 ہزار یورو تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر اسٹوئل نے مقدمے پر مزید بات چیت کرنے سے انکار کر دیا۔
دوسری جانب شام میں جاری تنازع کے لیے جنگجو بھرتی کرنے کے الزام میں گرفتار ڈچ شہریوں کے ایمسٹرڈیم میں مقیم نمائندہ وکیل بارٹ نوئٹ گیداج نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس طرح کے مقدمے میں جرم ثابت کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس طرح کے کیسز میں آپ کے پاس کوئی ایسا شخص ہونا چاہیے جو شام سے واپس آیا ہو اور یہ کہے کہ مجھے بھرتی کیا گیا تھا۔ اس طرح کے مقدمے میں اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت ہونے چاہئیں جیسے ٹیلیفون پر کی گئی گفتگو کا ریکارڈ یا کوئی ای میل، جس سے یہ ثابت ہو کہ مذکورہ شخص کو بھرتی کیا گیا تھا۔
نوئٹ گیداج کا کہنا تھا کہ صرف رشتے داروں کی جانب سے شکایات کا اندراج کافی نہیں اور ہالینڈ میں جب تک کہ بھرتی کیے گئے شخص کو واپس بلا کر یہ ثابت نہ کر دیا جائے اس وقت تک کسی بھی مقدمے میں کامیانبی نہیں مل سکتی۔
اپریل میں کنگ کالج لندن کی جانب سے جاری ایک ریسرچ میں بتایا گیا تھا کہ 2011 سے شام میں جاری بغاوت میں اب تک 600 سے زیادہ یورپی ملکوں کے افراد باغیوں کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں۔
ریسرچ میں بتایا گیا تھا کہ ان میں 134 جنگجوؤں نے برطانیہ سے شام کا رخ کیا جبکہ ہالینڈ سے 107، فرانس سے 92 اور بیلجیئم سے 85 افراد جنگ زدہ ملک گئے۔
اس کے علاوہ ڈنمارک، جرمنی، آئرلینڈ، فن لینڈ، اسپین، سوئیڈن، البانیہ، آسٹریا، بلغاریہ اور کوسووو سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو بھرتی کر کے شام روانہ کیا گیا۔
گزشتہ نومبر میں ہالینڈ نے تین مشتبہ جہادیوں کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ ملک چھوڑ کر نکلنے والے تھے۔
ان کے پاس سے چھریاں، تلوار، تیرکمان، تیار شدہ سفری بیگ، الوداعی خطوط اور بڑی تعداد میں جہادی لٹریچر برآمد ہوا تھا۔