صوبوں کے عدم تعاون کی وجہ سے بے نامی اثاثوں کے خلاف مہم مشکلات کا شکار

اپ ڈیٹ 18 اکتوبر 2019
وزیراعظم عمران خان نے 28 اگست کو صوبائی حکومتوں کو ارسال کیے گئے ایک خط میں ڈیٹا فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی — فائل فوٹو: اے پی پی
وزیراعظم عمران خان نے 28 اگست کو صوبائی حکومتوں کو ارسال کیے گئے ایک خط میں ڈیٹا فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: صوبوں کی جانب سے عدم تعاون کے باعث بے نامی اثاثوں کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی مہم رواں مالی سال کے ابتدائی 3 ماہ میں مشکلات کا شکار ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں صوبوں سے معلومات حاصل کرنے کی مدت 30 ستمبر طے کی گئی تھی جسے چاروں صوبوں نے گنوا دیا۔

وزیراعظم عمران خان نے 28 اگست کو صوبائی حکومتوں کو ارسال کیے گئے ایک خط میں ڈیٹا فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

حکومت نے یکم جولائی کو بے نامی اثاثوں کے خلاف کارروائی کے لیے ڈائریکٹوریٹ جنرل انسداد بے نامی انیشیٹیو (اے بی آئی) بھی تشکیل دیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان کے حکم کے مطابق صوبائی حکومتوں کو اپنے دائرہ کار میں موجود بے نامی جائیدادوں کی شناخت کے لیے ڈپٹی کمشنزر (ڈی سی) کو کہنا تھا۔

خیبرپختونخوا میں صرف 2 ڈپٹی کمشنرز نے 29 جائیدادوں کی نشاندہی کی ہے جن میں پشاور میں 27 اور 2 ٹانک میں ہیں جبکہ دیگر ڈی سیز نے کوئی رپورٹ جمع نہیں کروائی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا بے نامی جائیدادوں کی رپورٹ ایک ماہ میں پیش کرنے کا حکم

پنجاب میں صورتحال اس سے بھی زیادہ افسوسناک ہے کہ صوبے نے ڈیڈلائن میں توسیع طلب کی ہے، پنجاب میں صرف ایک ڈپٹی کمشنر نے 25 بے نامی جائیدادوں کی شناخت کی جن کا تعلق ملتان سے ہے۔

اسی طرح صوبہ سندھ سے 29 میں سے صرف 3 ڈپٹی کمشنرز نے جزوی ڈیٹا فراہم کیا ہے جبکہ بلوچستان سے اس سلسلے میں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

وزیراعظم عمران خان نے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وفاقی دارالحکومت کے چیف کمشنر سے 30 ستمبر تک بے نامی جائیدادوں کی رپورٹ طلب کی تھی تاہم کچھ مقامات سے معلومات نہیں ملیں اور جو اطلاعات موصول ہوئیں وہ بھی نامکمل ہیں۔

علاوہ ازیں موصول کردہ میں لفظ ’مشتبہ بے نامی جائیداد‘ شامل ہے، جسے حکام کی جانب سے شک کی وجوہات، شواہد اور بینیفیشری مالکان کے نام فراہم کیے بغیر استعمال کیا جاتا ہے جو بے نامی کیسز میں انتہائی معلومات ہے۔

ڈیٹا کو متعلقہ بنانے کے لیے حکام کو تجویز کردہ طریقہ کار کے تحت معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر کا بےنامی اکاؤنٹس رکھنے والوں کےخلاف کارروائی کا فیصلہ

اس کے ساتھ یہ خدشہ بھی ہے کہ صوبوں کی جانب سے عدم تعاون بے نامی اثاثوں کے خلاف مہم رک سکتی ہے۔

اس حوالے سے ڈان کی جانب سے دیکھے گئے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ڈی جی اے بی آئی کے قیام کے ابتدائی 3 ماہ میں صرف ایک ریفرنس دائر کیا گیا۔

ڈائریکٹر جنرل اے بی آئی ڈاکٹر بشیر اللہ خان نے بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ اب بے نامی اثاثوں کی نشاندہی کے لیے اپنے طور پر کوشش کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ فروری 2017 سے مشکوک مالی ٹرانزیکشنز کے ریکارڈز کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ تک رسائی حاصل کررہے ہیں تاکہ بے نامی اثاثوں کے بینیفشری مالکان کے خلاف تحقیقات کی جاسکیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) کے اندر اے بی آئی کے قیام سے متعلق مزاحمت موجود ہے۔

فنانس ڈویژن کی جانب سے اے بی آئی کو مضبوط بنانے کے لیے درکار فنڈز جاری کیے جائیں گے تاکہ بے نامی اثاثوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کیا جاسکے۔

ذرائع نے کہا کہ تاہم رواں ماہ کے اواخر تک 15 نئے ریفرنسز دائر کیے جائیں گے جن میں اومنی گروپ اور 7 ہزار کنال کی بے نامی زمین، جیسے میگا کیسز شامل ہوں گے۔

مزید پڑھیں: بےنامی جائیداد و اکاؤنٹس کےخلاف کارروائی کیلئے ایف بی آر میں نیا شعبہ قائم

انہوں نے مزید کہا کہ تجویز کردہ ریفرنسز میں نامزد اثاثوں کی مالیت 20 ارب روپے ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اومنی گروپ کیس میں 34 بے نامی دار ہیں لیکن اب تک صرف ایک ریفرنس دائر ہوا، رواں ماہ کے اواخر میں 3 سے 4 ریفرنس دائر کیے جانے کا امکان ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کچھ سیاستدانوں کے خلاف بے نامی اثاثوں کی معلومات موصول ہونے کے بعد ریفرنسز مزید مضبوط ہوگئے ہیں، علاوہ ازیں رواں ماہ کے اواخر میں 7 سے 8 کنال اراضی بھی منسلک کی جائے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ 40 ہزار کنال پر محیط بے نامی زمین کی تحقیقات جاری ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں