بھارتی نیٹ ورک کا جعلی نیوز ویب سائٹس کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بنانے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 14 نومبر 2019
ویب سائٹ نے بہت بڑی تعداد میں ایسے مضامین شائع کیے جو پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق تھے—تصویر:شٹراسٹاک
ویب سائٹ نے بہت بڑی تعداد میں ایسے مضامین شائع کیے جو پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق تھے—تصویر:شٹراسٹاک

کراچی: ایک غیر سرکاری یورپی گروپ نے بھارتی نیٹ ورک کے زیر انتظام 265 نیوز آؤٹ لیٹس موجود ہونے کا انکشاف کیا ہے جس کا مقصد پاکستان کے حوالے سے تنقیدی مواد کے ذریعے یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ پر اثر انداز ہونا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’ای یو ڈس انفو لیب‘ نامی گروپ کا مقصد یورپی یونین، اس کے اراکین ممالک، اہم اداروں اور اہم روایات کو ہدف بنانے والی غلط معلومات کی منظم مہم کے حوالے سے تحقیق کرنا ہے۔

اپنی تحقیقات کے دوران مذکورہ گروپ کے سامنے انکشاف ہوا کہ جعلی ویب سائٹس غیر معمولی پریس ایجنسیوں سے پاکستان کے خلاف مواد، سیاستدانوں اور مشتبہ تھنک ٹینکس کی جانب سے پھیلایا ہوا مواد نقل کر کے چھاپتی ہیں جو بھارتی جیو پولیٹکل مفادات کی حمایت کرتا ہو۔

یہ بھی پڑھیں: کیا کشمیریوں کو خاموش کروانے میں ٹوئٹر بھارت کی مدد کر رہا ہے؟

اسی قسم کی ’ای پی ٹوڈے ڈاٹ کام‘ نامی ویب سائٹ برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کا میگزین ہونے کا دعویٰ کرتی ہے جس نے لفظ بہ لفظ خبروں کو نقل کیا۔

ای ٹوڈے کا زیادہ تر مواد امریکی فنڈنگ سے چلنے والی ویب سائٹ ’وائس آف امریکا سے لیا گیا جو بھارتی مفاد میں اور پاکستان کے لیے تنقیدی ہے۔

ڈی انفو لیب کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ویب سائٹ نے بہت بڑی تعداد میں ایسی آرٹیکل یا آرا پرمبنی مضامین شائع کیے جو پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق تھے۔

مزید پڑھیں: بھارتی ایما پر کشمیر سے متعلق 10 لاکھ ٹوئٹس بلاک کیے جانے کا انکشاف

تحقیق میں اس بات س بھی پردہ اٹھایا گیا کہ یہ نیوز آؤٹ لیٹ بھارتی اسٹیک ہولڈرز چلا رہے ہیں جن کے تعلقات تھنک ٹینکس، غیر سرکاری تنظیموں(این جی او) اور سری وستاوا گروپ سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کے ایک بڑے گروپ سے ہے۔

یورپ کی ڈس انفو لیب کی تحقیقات میں یہ بات آئی کہ ای پی ٹوڈے کے دفتر کا پتا وہی ہے جو دہلی سے تعلق رکھنے والے سری وستاوا گروپ کا ہے جبکہ سری وساتاوا گروپ کا آئی پی ایڈریس بھی مشتبہ آن لائن میڈیا ’نئی دہلی ٹائمز‘ اور انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار نان الائنڈ اسٹڈیز (آئی آئی این ایس) کے لیے استعمال ہورہا ہے۔

مزید یہ کہ حال ہی میں ٓئی آئی این ایس نے یورپی پارلیمان کے 27 اراکین کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے لیے مدعو کیا ہے۔

اس کے علاوہ جینیوا کہ جہاں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا ہیڈکوارٹر موجود ہے وہاں سے ایک آن لائن ’اخبار‘ ٹائمز آف جینیوا ڈاٹ کام کا انکشاف ہوا جس کا دعویٰ ہے کہ ’اسے جاری ہوئے ’3 سال کا عرصہ‘ ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'بھارت کے اشتعال انگیز، منفی بیانات سے علاقائی امن تباہ ہو سکتا ہے'

ٹائمز آف جینیوا بھی ای پی ٹوڈے کی طرح کا مواد شائع کرتا ہے اور کشمیر تنازع میں پاکستانی کردار پر تنقید کرنے والے مظاہروں اور تقاریب کی کوریج کی ویڈیوز بھی بناتا ہے۔

جینیوا میں اس ویب سائٹ کے ذریعے بھارتی نیٹ ورک اقوامِ متحدہ کے لیے بھارتی مفادات کی لابی کرتا ہے۔

ان جعلی ویب سائٹس کے تجزیے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ زیادہ تر ویب سائٹس کے نام ایسے قدیم اخباروں کے نام پر رکھے گئے جو اب شائع نہیں ہوتے یا حقیقی میڈیا آؤٹ لیٹس کا چربہ ہیں۔

یہ ویب سائٹس بھارتی اثر رسوخ کے نیٹ ورک پر پاکستان مخالف مواد دوبارہ شائع کرتی ہیں جس میں جعلی نیوز ویب سائٹس مثلاْ ای پی ٹوڈے، 4 نیوز ایجنسی، ٹائمز آف جینیوا، نئی دہلی ٹائمز شامل ہیں، ان میں سے زیادہ تر ویب سائٹس کے ٹوئٹر اکاؤنٹس بھی ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے خلاف دہشتگردوں کی معاونت کا بھارتی پروپیگنڈا ناکام

ڈس انفو لیب کی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سی پی ٹوڈے اور ٹائمز آف جینیوا کے تھنک ٹینکس اور این جی اوز کے ساتھ انتہائی مضبوط تعلقات ہیں جن میں یورپی آرگنائزیشن برائے پاکستانی اقلیت اور پاکستانی خواتین کے انسانی حقوق کی تنطیم شامل ہے۔

یہ جعلی خبروں کے پلیٹ فارم کون بناتا ہے؟

ڈس انفو لیب کے تجزیے کے مطابق ان جعلی خبروں کے مراکز کا مقصد مخصوص مواقع اور مظاہروں کی کوریج کر کے بین الاقوامی اداروں اور منتخب نمائندوں پر اثر انداز ہونا ہے۔

اس کے علاوہ یہ این جی اوز کو مخصوص صحافتی مواد فراہم کرتے ہیں تا کہ ان کی ساکھ کو تقویت مل سکے اور اس طرح متاثر کرسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا، ریاست اور پروپیگنڈا

مذکورہ نیٹ ورک میں میڈیا اداروں کی کئی تہیں شامل ہیں جو ایک دوسرے کا مواد شائع کرتی ہیں اور اس سے قاری کے لیے ہیرا پھیری کا سراغ لگانا مشکل ہوجاتا ہےجس کے نتیجے میں کبھی کبھار بھارتی جیوپولیٹکل مفادات کے لئط بین الاقوامی حمایت کا گماں ہوتا ہے۔

اس مخصوص مواد کا زیادہ تر مقصد پاکستان کے حوالے سے عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونا ہے جس کے لیے سرچ انجنز میں ان کے بار بار سامنے آنے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Rizwan Nov 14, 2019 08:54am
Pakistan must also do the same.. India have more fault lines than any other country. Once can exploit