افغان صدر کا شدت پسند تنظیم 'داعش' کےخلاف فتح کا اعلان

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2019
افغان صدر نے شدت پسند تنظیم داعش کی تباہی اور اپنی فتح کا اعلان کیا— فوٹو: اے پی
افغان صدر نے شدت پسند تنظیم داعش کی تباہی اور اپنی فتح کا اعلان کیا— فوٹو: اے پی

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے شدت پسند تنظیم 'داعش' کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ان کے خلاف فتح کا اعلان کردیا۔

افغان صدر نے یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا ہے کہ جب چند گھنٹے قبل طالبان نے دو غیر ملکی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغان صدر کا ملک کے یومِ آزادی پر داعش کو کچلنے کا عہد

افغان حکام کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران داعش کے 600 سے زائد شدت پسندوں نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ افغان حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ افغان اور اتحادی افواج کے فضائی حملوں، فنڈز کی کمی اور پست ہوتے حوصلے کے سبب وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے صوبہ ننگرہار کے شہر جلال آباد میں عمائدین اور حکام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال قبل کسی کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ ہم ان کے خلاف کھڑے ہوں گے اور آج ہم داعش کی تباہی کا اعلان کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب کیونکہ داعش کے شدت پسند ہتھیار ڈال چکے ہیں لہٰذا میں نے حکام سے کہا ہے کہ وہ ان شدت پسندوں کے خاندانوں سے انسانیت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین رویہ اختیار کریں۔

یہ بھی پڑھیں: مشرقی افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کا فضائی حملہ، 30 شہری ہلاک

حکومت کا کہنا ہے کہ ان کے قبضے میں جو شدت پسند موجود ہیں وہ ایران، تاجکستان، پاکستان، ازبکستان، آذربائیجان، قازقستان اور مالدیپ کے باشندے ہیں۔

تاہم افغان صدر کے دعوے سے قطع نظر طالبان نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے داعش کی تباہی کو افغان طالبان کا کارنامہ قرار دیا۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان صدر اشرف غنی کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ کابل انتظامیہ کا داعش کی شکست میں صفر فیصد کردار ہے اور ننگرہار کے قابل فخر عوام اس کے گواہ ہیں۔

2001 میں افغانستان پر امریکی فوج کی چڑھائی کے بعد سے اب تک طالبان صوبہ ننگرہار کے ساتھ ساتھ افغانستان کے اکثر حصے پر قابض ہیں۔

مزید پڑھیں: ایک مرتبہ پھر داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کا دعویٰ

صوبہ ننگرہار کو داعش کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا جہاں سے وہ افغان دارالحکومت کابل سمیت ملک بھر میں بم دھماکے اور شدت پسندی کی کارروائیاں کرتے تھے۔

افغانستان میں جاری جنگ اور وہاں تک ذرائع ابلاغ کو معلومات تک رسائی میں پیش آنے والی مشکلات سمیت دیگر مسائل کے سبب افغان حکومت کے اس دعوے کی تصدیق کافی مشکل ہے۔

گزشتہ ماہ امریکا نے اعلان کیا تھا کہ شام میں امریکی فوج کی کارروائی کے دوران داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے خود کو مار کر ختم کر لیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں