جج وقت پر فیصلہ نہ کرے تو قاصد اور اس میں کوئی فرق نہیں، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2019
چیف جسٹس ملتان میں تقریب سے خطاب کر رہے تھے—فائل/فوٹو:ڈان
چیف جسٹس ملتان میں تقریب سے خطاب کر رہے تھے—فائل/فوٹو:ڈان

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ججوں کو بروقت فیصلے اور وکلا کی تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ عدالت میں بدمزگی کا واقعہ پیش آئے لیکن اب حالات ایسے نہیں رہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ملتان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق بھی ملتان سے ہے اور یہاں کئی سال گزارے ہیں اور ملتان نے سپریم کورٹ کو گھیرا ہوا ہے کیونکہ چیف جسٹس اور جونیئر جج بھی یہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔

‘پنگ پونگ بڑی پرانی کھیلتے ہیں’

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘ملتان بینچ سے میری یادیں وابستہ ہیں، پہلے مقدمات لڑتے تھے پھر بار رومز میں آتے تھے اور یہاں ٹیبل ٹینس کی ٹیبل ہوتی ہے صدر بار ضیاالدین قمر صاحب نے ایک مقابلہ کروایا’۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ‘اتفاق سے میں ملتان بینچ کا ٹیبل ٹینس چمپیئن بن گیا تو پنگ پونگ بڑی پرانی کھیلتے ہیں’۔

یہ بھی پڑھیں:طاقتور کا طعنہ نہ دیں،'کسی' کو باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی، چیف جسٹس

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں اور خالد لطیف نے چیس بھی بہت کھیلی اور شام کو تقریبات ہوتی تھیں اور ہماری ایک کرکٹ ٹیم ہوتی تھی، ملتان کرکٹ کلب گراؤنڈ میں لطیف امرتسری ہمارے پیٹرن تھے جنہوں نے انگلینڈ سے ہمارے نام کی کٹس لائی تھیں’۔

اپنے ماضی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے نے کہا کہ ‘سردار عبدالطیف کھوسہ ہماری کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اور اب بھی کافی چیزوں میں کپتان ہیں اور مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہیں’۔

‘عدالت میں اب وہ حالات نہیں رہے’

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ‘میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس وقت اچھا ماحول تھا، سینئر اور جونیئر کے درمیان پیار، شفقت، استاد اور شاگرد اور اچھا احترام تھا اور جن ججوں کے سامنے ہم پیش ہوتے تھے وہ بڑے مخلص اور پڑھے لکھے ہوتے تھے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘کبھی کوئی واقعہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی قسم کے حالات پیدا ہوں کہ عدالت کے اندر بدمزگی پیداہوجائے یہ قابل تصور تھا کیونکہ ماحول ایسا تھا اور تربیت دینے والے ایسے تھے تو اب حالات وہ نہیں رہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ وکالت کے پیشے میں اب ماضی جیسا اچھا ماحول نہیں رہا، ماضی میں مقدمات کم تھے اس لیے جج تسلی سے سن لیتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ مقدمات کے باعث جج صاحبان وکلا کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے جبکہ نئے وکلا زیادہ ہیں اور ان کی رہنمائی کے لیے سینئر وکلا بھی کم ہیں اس لیے جس کی دو سال کی بھی پریکٹس ہے اس کے ساتھ بھی 7 جونیئرز چل رہے ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ہائی کورٹ جج کو پولیس افسر کی 'بے عزتی' پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑا، چیف جسٹس

تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘لا کالجوں میں صورت حال یہ ہے کہ جس نے فرسٹ ایئر پاس کیا اور سیکنڈ ایئر میں جاتا تو اس کو کہتے ہیں آپ فرسٹ ایئر کو پڑھائیں گے تو آپ کی فیس معاف ہوگی اس طرح سیکنڈ ایئر کا طالب فرسٹ ایئر کو پڑھاتا ہے’۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علم سیکھنے اورسکھانے کی روایت کو آگے لےکر چلنا ہوگا، تاریخ، حساب اور ادب انتہائی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بطور جج کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ فیصلے کریں۔

‘جج اور قاصد میں فرق’

چیف جسٹس نے کہا کہ ‘جوڈیشل اکیڈمی میں ججوں کو لیکچر دیتا ہوں جہاں ایک مثال دیتا ہوں اس سے اہم مثال کوئی ہے ہی نہیں، میں ان کو بتاتا ہوں کہ کورٹ روم میں ایک جج صاحب بیٹھا ہے، ان کے آگے اسٹاف بیٹھا ہے، روسٹرم پر وکیل بحث کرتے ہیں ان کے آگے 10 وکیل اور 40 افراد اپنے مقدمات کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور اس کورٹ روم کے آخر میں دروازہ جہاں ایک قاصد کھڑا ہے جو آواز دیتا ہے’۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ‘جب وکیل بحث کرتا ہے تو اس کو جج صاحب بھی سنتے ہیں، ان کے مخالف وکیل، پیچھے 10 وکلا اور دیگر افراد اور وہ قاصد بھی سنتا ہے، اگر جج صاحب فیصلہ نہیں فرماتے ہیں تو پھر اس جج صاحب اور اس قاصد میں کوئی فرق نہیں ہے’۔

مزید پڑھیں:اگر کوئی جج فیصلہ نہیں کر رہا تو لوگ اس کی عزت کیوں کریں گے، چیف جسٹس

انہوں نے کہا کہ ‘اس کورٹ روم میں سب بیٹھے ہوتے ہیں لیکن جج فیصلہ سناتے ہیں، جج اور دیگر افراد میں یہی فرق ہے اگر جج صاحب فیصلہ دیے بغیر چلے جائیں گے تو کوئی فرق نہیں، اگر جج فیصلہ نہ کریں گے تو معاشرہ ہمیں عزت کیوں دے گا’۔

چیف جسٹس نے آخر میں کہا کہ ‘یہ سخت باتیں ہیں لیکن میں آئندہ اس حیثیت میں ملتان، اپنے گھر نہیں آسکوں گا لیکن میں کسی بھی حیثیت سے اپنے گھر آتا رہوں گا’۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ دسمبر میں ریٹائر ہوجائیں گے اور ان کی جگہ جسٹس گلزار احمد نئے چیف جسٹس ہوں گے جن کی نامزدگی کا نوٹی فکیشن جاری کیا جاچکا ہے۔

عدلیہ میں مزیدخواتین ججزکی شمولیت کویقینی بنارہےہیں، نامزد چیف جسٹس

دوسری جانب نامزد چیف جسٹس گلزار احمد نے لاہور میں میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ میں جج اور وکیل کی حیثیت سے خواتین کی شمولیت کو سماجی اور معاشرتی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت عدالتوں میں خواتین ججوں کی شمولیت کو یقینی بنا رہے ہیں۔

لاہور میں منعقدہ تیسری ویمن ججز کانفرنس میں ‘رول آف ویمن ججز ان ڈیولپنگ دی جنیڈر پرسپیکٹیو’ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ‘جینیڈر معاشی، سماجی اور روزمرہ زندگی سمیت ہر پہلو کا اہم حصہ ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان جیسے ملک میں جینڈر پرسپیکٹیو کے حوالے سے خواتین ججوں کا کردار نہایت اہم ہے جہاں ملکی آبادی کا تقریباً نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے’۔

یہ بھی پڑھیں:جسٹس گلزار احمد اگلے چیف جسٹس نامزد، سمری وزیر اعظم کو ارسال

نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ ‘سپریم کورٹ سمیت تقریباً 3 ہزار سے زائد جج ہیں اور دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ان میں خواتین ججوں کی تعداد تقریباً 500 ہے جو معاملے کو تشویش ناک ظاہر کررہا ہے کیونکہ یہ ان کی آبادی کے مطابق نہیں ہے’۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ‘ہم بطور ادارہ تجویز دیتے ہیں کہ جتنا ممکن ہو پاکستان کی عدلیہ میں خواتین کی شمولیت کے لیے اقدامات کیے جائیں، تاحال سپریم کورٹ آف پاکستان میں کوئی خاتون جج نہیں ہے تاہم ہائی کورٹس میں کم تعداد میں خواتین ججوں کو شامل کیا گیا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ویمن ججوں کی سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ضلعی عدالتوں میں تعیناتی کو یقینی بنایا جائے گا کیونکہ عدلیہ اور دیگر شعبوں میں ویمن ججوں کی شراکت کے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی’۔

خواتین ججوں کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘مقدمات کے فیصلوں میں خواتین جج بھی مرد ججوں کے برابر کردار ادا کرتی ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کو عدلیہ اور دیگر شعبوں میں مسائل ہیں لیکن زیادہ سے زیادہ خواتین کی تعیناتی اور شمولیت سے یہ مسائل وقت کے ساتھ ختم ہوجائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں