کیا آپ توند نکلنے یا جسمانی وزن میں اضافے کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں؟ حالانکہ زیادہ کھانا نہیں کھاتے اور ورزش بھی کرتے، پھر بھی یہ مسئلہ درپیش ہے؟

اگر ہاں تو اس کی وجہ آپ کے کھانے کے انداز میں چھپی ہوسکتی ہے۔

جی ہاں ایسے افراد جو اپنا کھانا بہت تیزی سے کھانے کے عادی ہوتے ہیں ان میں توند نکلنے اور موٹاپے سمیت متعدد امراض کا خطرہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔

یہ انتہائی نقصان دہ عادت ہے جو بسیار خوری، جسمانی وزن میں اضافے اور موٹاپے کا باعث بن سکتی ہے۔

طبی ماہرین کی جانب سے کھانے کو بہت تیزی سے کھانے کو نقصان دہ کیوں قرار دیا گیا، وہ وجوہات درج ذیل ہیں۔

زیادہ کھانے پر مجبور کردیے

آج کی مصروف دنیا میں لوگ اکثر بہت جلدی میں ہوتے ہیں اور کھانا افراتفری میں کھاتے ہیں، مگر دماغ کو پیٹ بھرنے کے سگنلز کے تجزیے کے یے وقت درکار ہوتا ہے۔ درحقیقت دماغ کو یہ محسوس کرنے میں 20 منٹ تک کا وقت لگ سکتا ہے کہ پیٹ بھرچکا ہے (یہ دورانیہ مختلف افراد میں مختلف ہوسکتا ہے)۔ جب آپ بہت تیزی سے کھاتے ہیں تو جسمانی ضروریات سے زیادہ کھانا بہت آسان ہوجاتا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ یہ اضافی کیلوریز جسمانی وزن کا باعث بننے لگتی ہیں۔ بچوں میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بہت تیزی سے کھانے والے 60 فیصد بچے ضرورت سے زیادہ کھالیتے ہیں، ایسے افراد میں زیادہ جسمانی وزن کا امکان بھی دیگر کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

موٹاپے اور توند کا خطرہ

موٹاپا اس وقت دنیا میں چند بڑے طبی مسائل میں سے ایک ہے اور یہ ایسا پیچیدہ عارضہ ہے جو لاتعداد دیگر بیماریوں کا باعث بن جاتا ہے، موٹاپے کی وجہ صرف ناقص غذا، ہر وقت بیٹھے رہنے یا قوت ارادی کی کمی ہی نہیں، درحقیقت طرز زندگی کے عناصر بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر تحقیقی رپورٹس میں بہت زیادہ تیزی سے کھانے کی عادت کو بھی توند نکلنے اور موٹاپے کا ایک ممکنہ خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ ایک حالیہ تجزیے میں دریافت کیا گیا کہ تیزی سے کھانے والے افراد میں موٹاپے کا امکان آرام سے کھانے والوں کے مقابلے دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔

دیگر امراض کا خطرہ بڑھائے

بہت تیزی سے کھانا نہ صرف توند نکلنے اور موٹاپے کا باعث ہی نہیں بنتا بلکہ یہ دیگر طبی مسائل کا بھی باعث بن سکتا ہے جیسے:

انسولین کی مزاحمت: بہت زیادہ تیزی سے کھانے اور انسولین کی مزاحمت کے خطرے میں تعلق موجود ہے، انسولین کی مزاحمت ذیابیطس ٹائپ ٹو کی جانب لے جانا عنصر ہے اور میٹابولک سینڈروم کا خطرہ بھی ظاہر کرتا ہے۔

ذیابیطس ٹائپ 2: تیزی سے کھانے سے ذیابیطس ٹائپ 2 کا امکان بھی بڑھتا ہے، ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ تیزی سے کھانے والے افراد میں اس خاموش قاتل مرض کا خطرہ آہستگی سے کھانے والوں کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

میٹابولک سینڈروم: بہت تیزی سے کھانے اور جسمانی وزن میں اضافے سے میٹابولک سینڈروم کا خطرہ بھی بڑھتا ہے جو کہ بلڈ پریشر، ذیابیطس اور امراض قلب کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔

ناقص ہاضمہ: تیزی سے کھانے کی عادت ہاضمے کی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے، ایسے افراد بڑے نوالے بہت کم چبانے کے بعد نگل لیتے ہیں جس سے نظام ہاضمہ کے افعال متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

کھانے کا مزہ کم ہوجانا: ایسے افراد کے لیے غذا میں زیادہ لذت باقی نہیں رہتی، یہ کوئی صحت کا مسئلہ تو نہیں مگر طرز زندگی کا ایک اہم مسئلہ ضرور ثابت ہوسکتا ہے۔

ان مسائل سے بچنے کا آسان طریقہ تو یہی ہے کہ کھانے کو آرام سے کھائیں، نوالے کو اچھی طرح چبانے کے بعد نگلیں یعنی ایک نوالہ کم از کم 20 سے 30 دفعہ ضرور چبائیں، چھوٹے نوالے بھی اس مقصد میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں