سنگین غداری کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2019
درخواست میں وزارت داخلہ، سابق صدر پرویز مشرف، خصوصی عدالت اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے—تصویر: فیس بک
درخواست میں وزارت داخلہ، سابق صدر پرویز مشرف، خصوصی عدالت اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے—تصویر: فیس بک

اسلام آباد: سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر توفیق آصف کی جانب سے اپنے وکیل کے توسط سے دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ’سپریم کورٹ کی جانب سے 4 اپریل 2019 کو دیے گئے فیصلے کے تناظر میں بعد کے فیصلے کو منسوخ قرار دیا جائے‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 4 اپریل کو سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ نہایت اہمیت کا حامل ہے لہٰذا اسے تیزی سے منطقی انجام تک پہنچایا جائے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس: کب کیا ہوا؟

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر سابق صدر 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے پر خصوصی عدالت میں پیش نہ ہوئے تو اپنا دفاع کا حق کھودیں گے جبکہ ملزم کو فائدہ پہنچانے کے لیے مقدمے کی کارروائی کنٹرول کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

سپریم کورٹ نے مذکورہ فیصلہ اس لیے جاری کیا تھا کہ خصوصی عدالت کسی منطقی انجام تک پہنچ سکے جبکہ مذکورہ حکم نامے میں واضح ہدایت موجود تھی کہ اگر پرویز مشرف پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف کیس کی کارروائی کرمنل کوڈ پروسیجر کی دفعہ 342 کے تحت ان کا بیان ریکارڈ کیے بغیر جاری رکھی جائے۔

خیال رہے کہ 26 نومبر کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کرکے استدعا کی تھی کہ خصوصی عدالت کو سپریم کورٹ کی جانب سے’مستعدی کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھنے‘ کی ہدایت پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے۔

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا

تاہم 27 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کے وکیل اور وزارت داخلہ کی ایک جیسی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔

چنانچہ سپریم کورٹ میں دائر کردہ نئی درخواست میں توفیق آصف نے موقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ کا حکم آئین اور قانون سے متصادم تھا کیوں کہ خصوصی عدالت کرمنل لا امینڈمنٹ ایکٹ 1976 کی دفعہ 4(1) کے تحت قائم کی گئی تھی اور ہائی کورٹ میں کوئی رٹ پٹیشن دائر نہیں کی جاسکتی۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد خصوصی عدالت کا طریقہ کار وضع کیا گیا جبکہ ہائی کورٹ، آئین کی دفعہ 199 شق 5 کے تحت رٹ پٹیشن پر سماعت نہیں کرسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: فیصلہ روکنے کیلئے حکومت کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست

اسپیشل کورٹ ایکٹ 1976 کی دفعہ 12 شق 3 کے تحت اپیل کا حق درخواست گزار کا ہے جبکہ وزارت داخلہ سنگین غداری کیس کے فیصلے سے بچنے کے لیے تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔

مذکورہ درخواست میں وزارت داخلہ، سابق صدر پرویز مشرف، خصوصی عدالت اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔

سنگین غداری کیس

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین و معطل کرنے کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا تھا جس کی متعدد سماعتوں میں وہ پیش بھی نہیں ہوئے اور بعد ازاں بیماری کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے رواں سال 19 نومبر 2019 کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 28 نومبر کو سنایا جانا تھا۔

تاہم مذکورہ فیصلے کو روکنے کے خلاف پرویز مشرف نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: ہم ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں

ساتھ ہی وفاقی حکومت نے بھی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

جس پر 27 نومبر کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔

جس کے بعد 28 نومبر کو سنگین غداری کیس کی سماعت میں اپنے تحریری فیصلے میں خصوصی عدالت نے کہا تھا وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے اور 3 ججز پر مشتمل بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں