چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 170 ہوگئی

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2020
گزشتہ 24 گھنٹوں میں وائرس سے 38 ہلاکتیں ہوئیں — فائل فوٹو:اے پی
گزشتہ 24 گھنٹوں میں وائرس سے 38 ہلاکتیں ہوئیں — فائل فوٹو:اے پی

چین میں پھیلنے والے نئے وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 170 ہوگئی جبکہ عالمی صحت حکام نے کورونا وائرس کے چین سے باہر منتقل ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور خطے سے نکالے گئے غیر ملکیوں کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 38 ہوگئی جبکہ ایک ہزار 737 نئے کیسز سامنے آئے جس کے بعد مجموعی کیسز کی تعداد 7 ہزار 711 ہوگئی۔

ان نئی ہلاکتوں میں سے 37 وائرس کے پھیلنے کے مقام، صوبہ ہوبے میں ہوئیں جبکہ جنوب مغربی صوبے سیچوان میں ایک شخص ہلاک ہوا۔

ہوبے کے ایک کروڑ 10 لاکھ کی آبادی والے شہر ووہان سے 195 امریکیوں کو واپس بلالیا گیا، جہاں اس وائرس کا آغاز ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: چین 'شیطان' وائرس سے لڑ رہا ہے، شی جن پنگ

نکالے گئے تمام امریکیوں کو کیلیفورنیا کے جنوبی حصے میں قائم فوجی اڈے میں 3 روز تک نگرانی کے لیے رکھا گیا ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ کہیں وہ وائرس سے متاثر تو نہیں ہوئے۔

جاپانی وزارت خارجہ کے مطابق ووہان سے 210 جاپانیوں کا گروہ آج ٹوکیو کے ہانیڈا ایئرپورٹ پر حکومت کے چارٹرڈ طیارے میں اترا۔

رپورٹس کے مطابق ان میں سے 9 میں زکام اور بخار کی علامات سامنے آئیں۔

جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے پارلیمانی اجلاس کے دوران بتایا کہ '206 جاپانیوں میں سے 3 میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی جبکہ دو میں اس وائرس کے علامات نہیں تھے'۔

فرانس، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، سنگاپور اور دیگر ممالک بھی اپنے شہریوں کو نکالنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔

چینی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 'متاثرہ علاقوں میں غذا اور روز مرہ کی ضروریات کی قلت کو پورا کرنے کے لیے حکام اقدامات تیز کر رہے ہیں تاکہ سامان کی مسلسل فراہمی اور قیمتیں مستحکم رکھی جاسکیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'وزارت کامرس کے ڈیٹا میں بتایا گیا کہ ووہان میں موجودہ ذخائر 15 روز تک باحفاظت چاول اور تیل کی فراہمی کو یقینی بناسکتے ہیں جبکہ پورک (سور کا گوشت) اور انڈے 10 روز اور سبزیاں 5 روز تک فراہم کی جاسکتی ہیں۔

حکومت نے کوئی تخمینہ ظاہر نہیں کیا کہ کب وہ اس وبا کو روک سکیں گے تاہم چند ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ وائرس 2 ہفتوں میں عروج پر پہنچ جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے سائنسدانوں کی اہم ترین پیشرفت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) ایمرجنسیز کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انسان سے انسان میں منتقل ہونے والے وائرس کے چین سے باہر، جاپان، جرمنی، کینیڈا اور ویتنام میں پھیلنا تشویش ناک ہے اور اس ہی وجہ سے اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے ماہرین کا دوبارہ اجلاس طلب کیا ہے تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ اس وبا کے پھیلنے کو عالمی ایمرجنسی قرار دیا جائے یا نہیں۔

اس نئے وائرس نے چین میں 2003-2002 میں ایس اے آر ایس وبا کے پھیلنے سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا ہے۔

ڈاکٹر مائیکل ریان نے دورہ چین کے دوران چینی صدر شی جن پنگ اور دیگر سینئر سرکاری عہدیداران سے ملاقات کے بعد واپسی پر نیوز کانفرنس کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'چین نے وبا کے پھیلنے پر درپیش غیر معمولی چیلنج کے پیش نظر غیر معمولی اقدامات کیے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک وائرس سے متاثرہ 99 فیصد کیسز چین میں سامنے آئے جبکہ اس سے ہلاکتوں کی شرح 2 فیصد ہے تاہم یہ اعداد و شمار ابتدائی ہیں۔

کیسز کے سامنے آنے اور ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے سانسدان ہلاکتوں کی شرح کے حوالے سے صرف سرسری اندازے لگارہے ہیں اور وائرس سے کم متاثر ہونے والے کیسز اس میں شامل نہیں ہوتے۔

موازنہ کیا جائے تو ایس اے آر ایس وائرس کے کیسز میں سے 10 فیصد متاثرہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، اس نئے وائرس کا تعلق کورونا وائرس کے خاندان سے ہے جن سے متاثرہ فرد عام سے بخار میں مبتلہ ہوجاتا ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی ہنگامی صورتحال کے تعین کیلئے عالمی ادارہ صحت کا اجلاس طلب

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس نئے وائرس کے حوالے سے کئی سوالات کا جواب جاننا ضروری ہے جن میں اس وائرس کے باآسانی پھیلنے اور اس کی سنگینی شامل ہے۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس ایک عام وائرس ہے جو عموماً میملز (وہ جاندار جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں) پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتا ہے۔

عموماً گائے، خنزیر اور پرندوں میں نظام انہضام کو متاثر کر کے ڈائیریا یا سانس لینے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے جبکہ انسانوں میں اس سے صرف نظام تنفس ہی متاثر ہوتا ہے۔

سانس لینے میں تکلیف اور گلے میں شدید سوزش یا خارش کی شکایت ہوتی ہے مگر اس وائرس کی زیادہ تر اقسام مہلک نہیں ہوتیں اور ایشیائی و یورپی ممالک میں تقریباً ہر شہری زندگی میں ایک دفعہ اس وائرس کا شکار ضرور ہوتا ہے۔

کورونا وائرس کی زیادہ تر اقسام زیادہ مہلک نہیں ہوتیں اگرچہ اس کے علاج کے لیے کوئی مخصوص ویکسین یا دوا دستیاب نہیں ہے مگر اس سے اموات کی شرح اب تک بہت کم تھی اور مناسب حفاظتی تدابیر کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کر لیا جاتا تھا۔

مگر سال 2020 کے اوائل میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین میں اس وائرس کی ایک نئی مہلک قسم دریافت کی جسے نوول کورونا وائرس یا این کوو کا نام دیا گیا۔

عام طور پر یہ وائرس اس سے متاثرہ شخص کے ساتھ ہاتھ ملانے یا اسے چھونے، جسم کے ساتھ مس ہونے سے دوسرے لوگوں میں منتقل ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ علاقے جہاں یہ وبا پھوٹی ہوئی ہو وہاں رہائشی علاقوں میں در و دیوار، فرش یا فرنیچر وغیرہ کو چھونے سے بھی وائرس کی منتقلی کے امکانات ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ چین کو اس وقت دوہری پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ ووہان اور ہوبے گنجان ترین آبادی والے علاقے ہیں اور اتنی بڑی تعداد کو کسی اور جگہ منتقل کرنا ممکن نہیں بلکہ اس سے مرض اور پھیل جانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

تبصرے (0) بند ہیں