عمران خان کے استعفیٰ کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کیا، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 14 فروری 2020
مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف مظاہروں کے نئے مرحلے کا اعلان کردیا — فائل فوٹو:ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف مظاہروں کے نئے مرحلے کا اعلان کردیا — فائل فوٹو:ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کے اختتام کے چند مہینوں بعد ہی حکومت مخالف مظاہروں کے دوسرے مرحلے کا اعلان کردیا۔

جمعیت اہل حدیث کے رہنما ساجد میر سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 'ساجد میر کے ساتھ ملک میں ایک آئینی اور منتخب حکومت کے قیام اور 19 مارچ کو لاہور میں آزادی مارچ کے بڑے اجتماع پر مشاورت ہوئی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کی ناکام پالیسیوں کے نتیجے میں ملک معاشی بحران کا شکار ہے، ہم عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں باصلاحیت اور نمائندہ حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن نے کراچی سے آزادی مارچ کا آغاز کردیا

انہوں نے کہا کہ 'کوئی شک نہیں کہ بڑی جماعتوں کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے اپوزیشن منقسم ہو چکی ہے جس سے حکومت کو فائدہ ہوا تاہم ہم یکسو ہیں کہ کس طرح سب کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں'۔

انہوں نے بتایا کہ 'ہم اہلیان لاہور اور زندہ دلان لاہور کی زمین پر عوام کی آواز بن کر آنا چاہتے ہیں، عوام ہماری آواز پر لبیک کہیں تاکہ عوام کی آواز گونجتی رہے'۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'اب ضروری ہے کہ ہر عام شہری یکجتی کا اور قومی وحدت کا مظاہرہ کرے، عوام کی آواز گونجتی اور ناجائز حکمرانوں کو للکارتے رہیں گے'۔

ان کا کہنا تھا 'ہم نے عوام میں دوبارہ نکلنے کا فیصلہ کیا ہے، 23 فروری کو کراچی میں بڑا جلسہ کریں گے، یکم مارچ کو اسلام آباد میں قومی کنونشن کا انعقاد کریں گے تاکہ عوام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جاسکے'۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'حکومت گھر جا چکی ہے اس وقت خلا ہے حکومت کوئی نہیں، حکومت کی رٹ نہیں رہی، رٹ کچھ اور قوتوں کی ہے'۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: 2 دن کی مہلت ہے وزیراعظم استعفیٰ دے دیں، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ 'عدالتوں اور پارلیمنٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کے معاملے پر حالات بدل گئے تھے'۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'چودھری پرویز الٰہی سے کہتا ہوں کہ اب وہ کسے امانت کہتے ہیں وہ راز کھول دیں، راز کی بات یہ تھی وزیر اعظم کا فوری استعفی ہوگا اور تین ماہ بعد نئے انتخابات ہوں گے جس پر دھرنا ختم کیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'چودھری برادران پہلے اپنی پوزیشن تو تبدیل کریں پھر ان کو جلسوں میں مدعو کرنے کا سوچیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'تحریک، تحریک ہوتی ہے اس میں نظریہ تبدیل نہیں کیا جاتا ہمیشہ اپنا عوامی موقف رکھا، ہماری تحریک کے باعث حکومت کی عمارت میں دراڑیں پیدا ہو چکی ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'آصف زرداری اور نواز شریف کے ساتھ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں ووٹ دینے کے بعد کوئی رابطہ نہیں، پہلے پیپلز پارٹی مشروط حمایت کر رہی تھی پھر انہوں نے بھی ترمیم واپس لے لیں، وہ اور مسلم لیگ (ن) ایک صفحے پر ہو گئیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'بنیادی چیز یہ ہے کہ تحریک تحریک ہوا کرتی ہے، ہم اپنے موقف پر رہتے ہوئے استقامت سے کھڑے ہیں تاہم اس وقت تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہماری تحریک کا حصہ نہیں ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر دونوں جماعتوں نے رابطہ کیا تو ان سے بات ہوگی، بات چیت کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کیے'۔

تبصرے (0) بند ہیں