کیپیٹل انتظامیہ نے زمین کیلئے مولانا عبدالعزیز کا مطالبہ حکومت کو بھجوادیا

اپ ڈیٹ 11 فروری 2020
مولانا عبدالعزیز کے بھتیجے ہارون رشید نے مدرسے کے لیے زمین کے مطالبے کی تردید کی —فائل فوٹو: اے ایف پی
مولانا عبدالعزیز کے بھتیجے ہارون رشید نے مدرسے کے لیے زمین کے مطالبے کی تردید کی —فائل فوٹو: اے ایف پی

لال مسجد کے معزول امام مولانا عبدالعزیز کے ساتھ مذاکرات کے دوران ان کی جانب سے کیے جانے والے مطالبے پر دارالحکومت اسلام آباد کے 3 علاقوں میں سے کسی ایک میں 20 کنال کے زمین کی پیشکش حکومت سے منظوری کے لیے بھجوادی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کیپیٹل ایڈمنسٹریشن کے سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ دیوبند مکتبہ فکر کے 8 علما پر مشتمل کمیٹی کی ثالثی میں مولانا عبدالعزیز کے ساتھ مذاکرات کیے گئے تھے جس میں انہوں نے شہر کے 3 علاقوں میں جامعہ حفصہ کے لیے زمین کی نشاندہی کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ ڈویژن کے پاس مدرسے کے لیے زمین کی منظوری دینے کا اختیار ہے اس کے لیے مولانا عبدالعزیز کے مطالبات حکومت تک ارسال کردیے گئے ہیں۔

حکام نے واضح کیا کہ ایچ-11 میں مدرسے کے لیے زمین کی الاٹمنٹ منسوخ ہونے کے بعد اس کی جگہ ترنول میں جی ٹی روڈ پر اراضی فراہم کرنے کی منظوری دی گئی تھی تاہم مولانا عبدالعزیز نے اسے مسترد کیا تھا اور شہر کے اندر کہیں بھی زمین کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا عبدالعزیز جامعہ حفصہ کیلئے زمین کے وعدے پر لال مسجد چھوڑنے پر تیار

اس کے علاوہ مزید کچھ مطالبات کے ساتھ انہوں نے اپنے اہلِ خانہ اور مدرسے کی طالبات کے ہمراہ لال مسجد پر قبضہ کرلیا تھا کہ تا کہ حکومت پر دباؤ ڈالا جاسکے۔

کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اور مولانا کے درمیان جاری یہ تنازع مذاکرات کے ذریعے ختم ہوا تھا اور اتوار کے روز طالبات نے لال مسجد سے واپس جانا شروع کردیا تھا۔

اس حوالے سے ایک عہدیدار نے بتایا کہ مذاکرات کے بعد مسجد سے ملحقہ تمام سڑکیں عوام کے لیے کھول دی گئیں اور وہاں تعینات پولیس کے دستے واپس بلوالیے گئے تھے۔

تاہم چند اہلکار کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہاں موجود تھے جبکہ مسجد سے مکمل انخلا تک اطراف میں گشت بڑھا دیا گیا۔

حکام نے بتایا کہ مولانا عبدالعزیز نے انتظامیہ کو یقین دہانی کروائی کہ مسجد جلد خالی کردی جائے گی، انہوں نے انتظامیہ سے کچھ وقت طلب کیا ہے اسی طرح انتظامیہ نے حکومت سے ان کے مطالبات کی منظوری کے لیے کچھ وقت مانگا ہے۔

مزید پڑھیں: مولانا عبدالعزیز لال مسجد پر قابض، صورتحال کشیدہ

حکام نے مولانا عبدالعزیز کی جانب سے نشاندہی کی گئی زمین کے بارے میں نہیں بتایا البتہ صرف اتنا کہا کہ انہوں نے حکومت کا جواب لینے کے لیے کچھ وقت مانگا ہے۔

دوسری جانب مولانا عبدالعزیز کے بھتیجے ہارون رشید نے مدرسے کے لیے زمین کے مطالبے کی تردید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا انتظامیہ کے ساتھ زبانی سمجھوتہ ہوا ہے کہ حتمی فیصلے تک ای-11 کی زمین کو متنازع قرار دیا جائے گا‘، انہوں نے کہا کہ یہ زمین مدرسے کے لیے مختص کی گئی تھی اور تعمیرات شروع ہونے کے باوجود واپس لے لی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مولانا عبدالعزیز کا دوسرا مطالبہ مسجد میں رہنے اور نماز کی امامت کرنے کا تھا، ہم مسجد خالی نہیں کررہے، مولانا کے اہلِ خانہ اور میں وہاں موجود گھروں میں ہی رہیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: لال مسجد کا تنازع تیسرے روز بھی برقرار

ہارون رشید کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے مسجد کی زمین پر نہیں بلکہ ملحقہ زمین پر گھر تعمیر کیے ہیں اور طالبات نئے مدرسے کی تعمیر تک مسجد میں ہی رہیں گی'۔

انہوں نے بتایا کہ انتظامیہ نے ان کے خلاف آبپارہ پولیس اسٹیشن میں کارِ سرکار میں مداخلت کے الزمات پر 4 مختلف مقدمات قائم کیے ہیں، تاہم ’آئندہ احکامات تک تمام ایف آئی آر بند کردی گئیں ہیں‘۔

مولانا عبدالعزیز کا لال مسجد پر قبضہ

یاد رہے کہ مولانا عبدالعزیز کچھ روز قبل پابندی کے باوجود لال مسجد میں طالبات کے ساتھ آکر قابض ہوگئے تھے اور حکام کا ردِ عمل جانچنے کے لیے نماز جمعہ کا خطبہ بھی دیا تھا جس میں اشتعال انگیز باتیں کی گئیں تھیں۔

تاہم حکام نے اسے نظر انداز کردیا تھا البتہ صورت حال اس وقت کشیدہ ہوگئی تھی جب سیکڑوں طالبات نے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 11 میں قائم جامعہ حفصہ میں داخل ہو کر اس کی سیل توڑ دی تھی۔

بعدازاں انتظامیہ نے مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد خالی کرنے کا انتباہ دینے کے بعد مسجد کے باہر کے علاقے کا محاصرہ کرلیا تھا اور نماز جمعہ کے علاوہ کسی نماز کے لیے نمازیوں کو اندر جانے نہیں دیا گیا تھا۔

اس کے نتیجے میں دارالحکومت کی انتظامیہ کے افسران مولانا عبدالعزیز سے ملاقات کے لیے لال مسجد پہنچے لیکن مذاکرات اس لیے بے نتیجہ رہے کہ مولانا کا اصرار تھا کہ وفاقی وزیر کے عہدے کی سطح کا کوئی عہدیدار ان سے بات چیت کرے۔

تنازع کے خاتمے کے لیے کالعدم اہل سنت والجماعت کی جانب سے اپنا کردار ادا کرنے اور سرکاری مسجد کے باہر ملاقات کے لیے بھی رضاکارانہ طور پر خود کو پیش کیا گیا تھا جبکہ سیکیورٹی حکام نے اسلام آباد کی انتظامیہ سے صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے ملاقات کی۔

بعدازاں اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے 20 کینال زمین الاٹ کرنے کے وعدے پر مولانا عبدالعزیز لال مسجد چھوڑنے پر رضامند ہوگئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں