چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتیں 1100 سے تجاوز کر گئیں

اپ ڈیٹ 12 فروری 2020
عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس کو COVID-19 کا نام دینے کا اعلان کیا ہے — فوٹو: اے ایف پی
عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس کو COVID-19 کا نام دینے کا اعلان کیا ہے — فوٹو: اے ایف پی

چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتیں 1100 سے تجاوز کر گئی ہیں اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک سے اتحاد کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

وائرس سے بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے باوجود خوش آئند امر یہ ہے کہ لگاتار دوسرے دن وائرس میں مبتلا ہونے والے نئے افراد کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: ووہان میں پھنسا پاکستانی طالبعلم والد کے جنازے میں شرکت تک نہ کرسکا

چین میں وائرس سے مزید 97 افراد جان کی بازی ہار گئے جس سے ملک میں ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار 113 ہو چکی ہیں اور نئے نام COVID-19 کے حامل اس وائرس سے اب تک 44 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس کو COVID-19 کا نام دینے کا اعلان کیا تاکہ اپنے ضابطہ اخلاق کی روشنی میں مرض کو کسی جانور یا کسی خطے سے منسوب نہ کیا جائے۔

منگل کو جنیوا میں وائرس سے مقابلے کے لیے منعقدہ کانفرنس میں سائنسدانوں سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کی سربراہ تیدروس ادہانوم گیبریسس نے خبردار کیا کہ یہ وائرس ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس اس وائرس سے نمٹنے کے لیے متحد ہو کر مقابلہ کرنے کا موقع میسر ہے، ہمارا دفاع ختم نہیں ہوا اور اگر ہم آج سرمایہ کریں تو ہمارے پاس اسے پھیلاؤ سے روکنے کا موقع موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چینی صدر کی کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی عیادت

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر وائرس سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے جائیں تو اس کے نتائج کسی خطرناک دہشت گرد حملے سے بھی زیادہ بدتر ہو سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ اس وائرس کا آغاز صوبہ ہوبے اور اس کے دارالحکومت ووہان سے ہوا تھا اور چینی حکومت نے وہاں ساڑھے 5 کروڑ سے زائد لوگوں کو محصور رکھا ہوا ہے تاکہ اس وائرس کو مزید علاقوں، خطوں اور ممالک میں پھیلاؤ سے روکا جا سکے۔

متعدد حکومتوں نے چین سے مسافروں کی آمد پر پابندی عائد کر دی ہے اور دنیا کی متعدد نامور ایئر لائنز نے وائرس کے خطرے کے سبب چین کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے حوالے سے سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرلی

اس انسانی المیے سے سب سے زیادہ ہلاکتیں بھی صوبہ ہوبے اور ووہان میں ہوئی ہیں لیکن مثبت پیشرفت یہ ہے کہ صوبہ ہوبے میں لگاتار دوسرے دن نئے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد مں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔

صوبہ ہوبے کے علاوہ دیگر صوبوں کی بات کی جائے تو حفاظتی اقدامات کی بدولت ایک ہفتہ قبل ہی وائرس کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں کمی آنا شروع ہو گئی تھی۔

چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے نامور سائنسدان زونگ نینشن نے ووہان میں طبی عملے سے ویڈیو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وائرس کا شکار ہونے والے نئے کیسز میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے، یہ کب ممکن ہونا شروع ہوا، یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن یہ وائرس فروری کے وسط میں اپنی انتہا پر تھا اور اب بتدریج ختم ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: عالمی ادارہ صحت کی ٹیم وجوہات جاننے کیلئے چین پہنچ گئی

ادھر چین سے باہر وائرس سے متاثرہ افراد کی سب سے بڑی تعداد ایک جاپانی کروز شپ پر موجود ہے جسے بالکل الگ تھلگ ساحلی علاقے میں بھیج دیا گیا ہے۔

کروزشپ پر موجود 174 افراد وائرس کا شکار ہیں اور یہ چین سے باہر کسی بھی ایک مقام پر وائرس کا شکار افراد کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

دوسری جانب اس وائرس کے پھیلاؤ کا نیا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ وائرس سے ہلاک ہونے والے برطانوی شہری نے کبھی چین کا سفر نہیں کیا تھا اور اس سے 11 افراد متاثر ہوئے اور اس خبر سے عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا بھر کے اہم ممالک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

بیرون ملک وائرس کا شکار ہونے والے اکثر افراد چین کے صوبہ ہوبے کے شہر ووہان سے تعلق رکھتے تھے یا پھر وہ ووہان میں رہنے والے افراد کی وجہ سے اس وائرس کی زد میں آئے۔

مزید پڑھیں: چین: کورونا وائرس سے اشیا کی فراہمی متاثر، مہنگائی میں اضافہ

برطانوی شہری کا نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے سنگاپور گئے تھے اور وہاں وہ وائرس کا شکار ہوئے اور فرانس میں چھٹیوں کے دوران یہ وائرس ان سے دیگر افراد میں منتقل ہوا جس کے بعد برطانیہ واپسی پر ان میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی۔

اس شخص سے وائرس کی زد میں آنے والے پانچ افراد فرانس، پانچ برطانیہ اور ایک اسپین میں زیر علاج ہے تاہم اس نئے خطرے پر عالمی ادارہ صحت نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین نے صرف 10 دن میں ایک ہزار بستروں کا ہسپتال کیسے تعمیر کیا؟

عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں