جج کا عمر عبداللہ کی حراست کے خلاف دائر درخواست کی سماعت سے انکار

12 فروری 2020
عمر عبداللہ کو گزشتہ برس 5 اگست کو حراست میں لیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
عمر عبداللہ کو گزشتہ برس 5 اگست کو حراست میں لیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

بھارتی سپریم کورٹ کے جسٹس موہن ایم شنتناگوودر نے مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی حراست کے خلاف ان کی بہن کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کرنے سے انکار کردیا۔

خیال رہے کہ سارہ عبداللہ پائلٹ نے اپنے بھائی کی غیر قانونی طور پر حراست اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان پر عائد کیے گئے الزامات کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

بھارتی اخبار دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق آج (بروز بدھ) کو جسٹس این وی رامانا کی سربراہی میں جسٹس سنجیو کھنا اور جسٹس موہن ایم پر مشتمل 3 رکنی بینچ کے سامنے اس درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔

سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس موہن نے یہ کہتے ہوئے خود کو بینچ سے الگ کرلیا کہ ’میں اس معاملے کی سماعت نہیں کروں گا‘۔

چنانچہ اب یہ کیس جمعرات کے روز ایک دوسرے بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی حراست کے خلاف بہن کا عدالت سے رجوع

واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو 5 اگست کو مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے مستقل حراست میں رکھا ہوا ہے، عمر عبداللہ کو بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا گیا تھا لیکن کچھ روز قبل پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان پر مختلف الزامات عائد کیے گئے تاکہ حراست کا جواز فراہم کیا جا سکے۔

رپورٹس کے مطابق عمر عبداللہ پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے شدت پسندی اور انتخابات کے بائیکاٹ کے مطالبات کے دوران اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی۔

الزامات کے مطابق حریت رہنماؤں کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کے مطالبات کے دوران سابق یونین منسٹر عمر عبداللہ عوام پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ جب انہوں نے انتخابات میں حملوں اور بائیکاٹ کے مطالبات کے باوجود عوام سے ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا تو ان کے حلقے میں لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے تھے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ گرفتار

اس کے خلاف سارہ عبداللہ نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ گزشتہ ماہ کے دوران حراست میں لیے گئے تمام افراد کے خلاف اسی طرح سے گرفتاری کے حکم نامے جاری کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکم کے مطابق حکومتی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنانا بھارتی ریاست پر تنقید کے مترادف ہے، یہ جمہوری سیاست کی کھلی خلاف ورزی اور بھارت کے آئین کی پامالی ہے۔

انہوں نے عمر عبداللہ کی تمام تقاریر، خطاب اور پیغامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ حراست کے بعد سے اب تک انہوں نے صرف اور صرف امن اور تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔

سارہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات عائد کیے گئے اور انہیں عوام میں مقبولیت اور ان پر حاصل اثر و رسوخ کی وجہ سے الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ 'متنازع قانون' کے تحت گرفتار

اپنی درخواست میں سارہ عبداللہ نے اپنے بھائی پر عائد مضحکہ خیز الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمر عبداللہ پر لوگوں کو انتخابات میں شرکت اور ووٹ کے جمہوری حق کے استعمال پر آمادہ کرنے کے الزامات ہیں۔

اس کے علاوہ سابق وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی مخالفت کی اور ٹوئٹر پر لوگوں کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دی لیکن ان الزامات کے خلاف ثبوت کے طور پر کسی بھی ٹوئٹر پوسٹ کا حوالہ نہیں دیا گیا۔

قانون کے تحت عمر عبداللہ کو 6 ماہ تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے جس کا خاتمہ 5 فروری 2020 کو ہوگیا تھا۔

تاہم 5 فروری کو بھارتی حکومت نے سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کا استعمال کرتے ہوئے کسی ٹرائل کے بغیر مزید 3 ماہ تک حراست میں رکھنے کی منظوری دی تھی جس میں ایک سال تک توسیع کی جا سکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں