فروغ نسیم نے انور منصور خان سے معافی مانگ لی

اپ ڈیٹ 24 فروری 2020
انور منصور خان اور فروغ نسیم ایک پریس کانفرنس میں شریک ہیں — فائل فوٹو: پی آئی ڈی
انور منصور خان اور فروغ نسیم ایک پریس کانفرنس میں شریک ہیں — فائل فوٹو: پی آئی ڈی

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان سے معافی مانگ لی۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ انور منصور خان ہمارے اور خالد جاوید خان کے بڑے بھائی ہیں، ان سے احترام کا ایک مشترکہ رشتہ ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ مجھ سے گستاخی ہوگئی، میں بھی انسان ہوں اور شاہزیب خانزادہ نے مجھ سے ایک سوال کیا جس کے جواب میں استعمال کیے گئے میرے الفاظ غلط تھے، جس پر میں انور منصور خان سے معافی مانگتا ہوں اور اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔

اس دوران ایک صحافی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں نے ٹی وی پروگرام میں جو جملہ کہا تھا اس کے الفاظ کو واپس لیتا ہوں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں بیان: انور منصور اور فروغ نسیم کے ایک دوسرے پر الزامات

دوران گفتگو ان سے نئے اٹارنی جنرل خالد جاوید کی تعیناتی سے متعلق بھی سوال کیا گیا جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے خالد جاوید کی تعیناتی پر کوئی تحفظات نہیں ہیں، ان سے بھی بھائیوں والا تعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد کا خالد جاوید کے والد سے پرانا تعلق ہے، اسی پر ان کے ہمراہ بیٹھے خالد جاوید نے کہا کہ فروغ نسیم کے والد میرے بڑے مہربان تھے، میں کنسلٹنٹ تھا، مجھ پر اعتراض ہوتا تھا تو فروغ نسیم کے والد میرا دفاع کرتے تھے۔

علاوہ ازیں فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ جو یہ کہتا تھا کہ مجھے خالد جاوید پر اعتراض ہے تو اس کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں استعفیٰ نہیں دے رہا اور نہ ہی مجھے خالد جاوید کی تعیناتی پر کوئی تحفظات ہیں۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 18 فروری کو سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالتی بینچ سے متعلق 'متنازع بیان' دیا تھا، جس کو میڈیا میں رپورٹ ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

اس بیان کے اگلے روز سماعت کے دوران عدالت نے انور منصور کو اپنے بیان سے متعلق مواد پیش کرنے یا تحریری معافی مانگنے کا کہا تھا، ساتھ ہی اسی روز پاکستان بار کونسل نے ان سے استعفے کا مطالبہ کردیا تھا۔

بعد ازاں 20 فروری کو انور منصور خان نے اٹارنی جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ پاکستان بار کونسل کے مطالبے پر مستعفی ہورہے ہیں، تاہم حکومت نے کہا تھا کہ ان سے استعفیٰ مانگا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب بار کونسل وزیرقانون فروغ نسیم کے حق میں سامنے آگئی

اسی روز ایک اور تنازع تب کھڑا ہوا تھا جب اس وقت اٹارنی جنرل نے وزیر قانون اور فروغ نسیم نے انور منصور خان پر الزامات لگا دیے تھے۔

انور منصور خان نے کہا تھا کہ ہر کوئی جانتا تھا کہ میں کس حوالے سے بات کررہا تھا اور ہر کوئی جانتا تھا کہ میں نے کیا بیان دینا ہے لہذا یہ کہنا کہ میں نے ذاتی طور پر بیان دیا تو یہ غلط ہے۔

حکومت کی جانب سے استعفیٰ لیے جانے سے متعلق سوال پر انور منصور خان نے کہا تھا کہ کوئی جو کہنا چاہے کہہ سکتا ہے، کیا میں ان سے ملا؟ کیا کسی نے مجھ سے بات کی یا آکر کہا ہے؟ اگر کسی نے مجھ سے آکر نہیں کہا، اطلاع نہ دی یا استعفیٰ نہیں مانگا تو یہ کیسے کوئی کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے استعفیٰ مانگا گیا۔

2سپریم کورٹ میں دیے گئے بیان سے متعلق انور منصور خان نے کہا کہ ’یہ سب (وزارت قانون) موجود تھے، انہیں سب پتہ تھا اور ظاہر ہے جب پتہ تھا تو میں نے بیان دیا تھا اور اس کے بعد انہوں نے سراہا بھی تھا کہ یہ بات ہوئی ہے‘ ۔

بیان دینے سے قبل معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اور وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم سے تبادلہ خیال سے متعلق سوال پر سابق اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ بالکل اس حوالے سے دونوں پر بات چیت ہوئی تھی لیکن وزیراعظم سے اس سلسلے میں کبھی بات نہیں ہوئی۔

تاہم وزیر برائے قانون و انصاف فروغ نسیم نے انور منصور خان کے بیان دینے کے ارادے کی پیشگی اطلاع ہونے سے انکار کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان بار کونسل کا فروغ نسیم کو وزیر قانون کے منصب سے فوری ہٹانے کا مطالبہ

نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے، میں تو ان کی عزت کررہا ہوں ہر چینل میں ان کا دفاع کررہا ہوں اور اب یہ اس طرح کی بات کررہے ہیں۔

فروغ نسیم نے کہا تھا کہ یہ صرف انور منصور کی دلیل اور اختراع تھی اس سے نہ تو حکومت کا کوئی تعلق ہے نہ ہمیں اس بارے میں کچھ پتہ تھا، اگر حکومت کو حقیقت میں علم ہوتا کہ وہ کیا کہنے والے ہیں تو کیا ہم انہیں کہنے دیتے؟

انہوں نے کہا تھا کہ سابق اٹارنی جنرل اپنے بیان سے خود دستبردار ہوئے تھے ہم نے انہیں ایسی کوئی ہدایات نہیں دیں تھیں، میں وہاں وزیر قانون کی حیثیت سے نہیں بلکہ ذاتی حیثیت سے موجود تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں