سکھر: مسافر ٹرین کا کوچ سے تصادم، 20 افراد جاں بحق

مسافر کوچ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی—فوٹو:ڈان نیوز
مسافر کوچ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی—فوٹو:ڈان نیوز

سندھ کے ضلع سکھر کے علاقے روہڑی کے قریب پاکستان ایکسپریس کا کوچ سے تصادم ہو گیا جس کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد جاں بحق اور 60 سے زائد زخمی ہوگئے۔

سکھر پولیس کے اے آئی جی ڈاکٹر جمیل احمد کا کہنا تھا کہ اب تک خواتین سمیت 20 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے لیکن اموات میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ کئی زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایک خوفناک حادثہ ہے اور مسافر کوچ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی جبکہ تصادم کے ساتھ ہی ٹرین، کوچ کو 150 سے 200 فٹ دور تک گھسیٹتے ہوئے لے گئی’۔

مزید پڑھیں:تیزگام حادثے میں ریلوے انتظامیہ کی غفلت شامل تھی، انکوائری رپورٹ

کمشنر سکھر شفیق مہیسر کا کہنا تھا کہ 'یہ بہت بڑا حادثہ ہے، مقامی انتظامیہ اور پولیس عہدیداروں کو جائے حادثہ بھیج دیا گیا ہے'۔

اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے جائے حادثہ کے حوالے سے کا ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایک بے نام ریلوے کراسنگ ہے جہاں ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی نہیں ہوتا’۔

مسافر کوچ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی—فوٹو:ڈان نیوز
مسافر کوچ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی—فوٹو:ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جنہیں شدید زخم آئے ہیں اور انہیں روہڑی اور سکھر کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق حادثہ روہڑی کے قریب اچھیوں قبیوں کے مقام پر پیش آیا جہاں کراچی سے سرگودھا جانے والی ایک مسافر کوچ پھاٹک کھلا ہونے کے باعث کراچی سے راولپنڈی جانے والی پاکستان ایکسپریس کی زد میں آگئی۔

پاکستان ایکسپریس کی ٹکر سے مسافر کوچ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تاہم زخمیوں روہڑی اور سکھر کے ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:رحیم یار خان: تیزگام ایکسپریس میں آتشزدگی، جاں بحق افراد کی تعداد 74 ہوگئی

تصادم سے پاکستان ایکسپریس کے انجن کو بھی نقصان پہنچا اور اسسٹنٹ ڈرائیور بھی زخمی ہوئے تاہم ٹرین پٹڑی سے اترنے سے بچ گئی۔

عینی شاہدین کے مطابق اچھیوں قبیوں کے قریب قومی شاہراہ کے ریلوے اوورہیڈ پر ٹریفک جام کی وجہ سے مسافر کوچ نے قومی شاہراہ کو چھوڑ کر متبادل راستہ اختیار کرکے ریلوے پٹڑی سے گزرنے کی کوشش کی جہاں نہ ریلوے کا پھاٹک ہے اور نہ ہی کوئی پھاٹک والا موجود ہوتا ہے۔

سکھر کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر ڈاکٹر منیر منگریو نے تصدیق کی کہ 13 لاشوں کو روہڑی ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے جبکہ دیگر لاشوں کو سکھر بھیج دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر منیر منگریو کا کہنا تھا کہ 60 زخمیوں کو سکھر ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے جبکہ دیگر 20 زخمیوں کو تاحال کسی ہسپتال تک نہیں پہنچایا جاسکا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے روہڑی اور سکھر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے اور ڈاکٹروں اور طبی عملے کو کو فوری طور پر طلب کرلیا گیا ہے۔

حادثے کے فوری بعد ایدھی، پولیس اور دیگر ریسکو ادارے جائے وقوع پر پہنچے اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنا شروع کردیا۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے حادثے پر افسوس کا اظہار کیا اور صوبائی حکومت کو زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی ہدیات کی۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے حادثے پر افسوس کا اظہار کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ بظاہر بس ڈرائیور کی غلطی سے یہ حادثہ پیش آیا۔

مزید پڑھیں:وزیر ریلوے نے تیز گام حادثے پر غلطی کا اعتراف کرلیا

وزارت ریلوے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ٹرین کے انجن کو نقصان پہنچا ہے اور اسسٹنٹ ڈرائیور کو زخم آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹرین میں سوار تمام مسافر بحفاظت ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان ریلوے کے 2 ہزار 470 بے نام ریلوے کراسنگز ہیں جس کے متعلق صوبائی حکومت کو کئی بار تحریری طور پر آگاہ کیا جاچکا ہے کہ وہاں پر عہدیداروں کو تعینات کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے انسپکٹر آف ریلوے اس واقعے کی تفتیش کریں گے۔

یاد رہے کہ 31 اکتوبر 2019 کو کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے قریب حادثے کا شکار ہوئی تھی اور آتشزدگی کے نتیجے میں کم ازکم 74 افراد جاں بحق اور 30 سے زائد مسافر زخمی ہوگئے تھے۔

تیزگام کے ساتھ یہ حادثہ صبح 6:15 منٹ پر پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور میں چنی گوٹھ کے نزدیک چک نمبر 6 کے تانوری اسٹیشن پر پیش آیا تھا۔

ابتدائی طور پر حکام نے حادثے کی وجہ گیس سلنڈر پھٹنے کو ٹھہرایا تھا اور کہنا تھا کہ آگ بوگی نمبر 3 میں موجود سلنڈر پھٹنے سے لگی اور تیزی سے 3 بوگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے حادثے پر محکمے کی غلطی کا اعتراف کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:سانحہ تیزگام: ریلوے حکام کی غفلت حادثے کا باعث بنی، عہدیدار

پاکستان ریلوے نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسٹیشنوں اور ریل کے اندر ڈیوٹی پر مامور ریلوے پولیس، کنڈیکٹر گارڈز، ٹکٹ چیکر و دیگر قوانین اور ایس او پیز کے مطابق فرائض انجام دیتے تو اس سانحے سے بچا جاسکتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ریلوے انتظامیہ، آپریشنل اور سیکیورٹی کے سنگین نقائص کے باعث تیزگام ٹرین کا سانحہ پیش آیا کیونکہ ایسے حادثات کی روک تھام پر مامور عہدیداران نے متعلقہ قوانین اور اسٹینڈرڈ آپریشن پروسیجرز (ایس او پیز) کو نظر انداز کرتے ہوئے فرائض میں غفلت برتی۔

پاکستان ریلوے کے چیف ایگزیکٹو آفسر (سی ای او) نے سیکیورٹی کی ناقص صورتحال کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ انکوائری رپورٹ میں ذمہ دار قرار دیے جانے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'یہ سچ ہے کہ سیکیورٹی اور حفاظت کی ناقص صورتحال کی وجہ سے المناک حادثہ پیش آیا لہذا ہم حادثے کے ذمہ دار عہدیداران کو معاف نہیں کریں گے'۔

بعد ازاں 3 جنوری 2020 کو پاکستان ریلوے کے سابق جنرل منیجر نے تیزگام حادثے کی عدالتی انکوائری کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔

مزید پڑھیں:سانحہ تیزگام کی جوڈیشل انکوائری کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست

درخواست گزار شفیق اللہ نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، ریلوے کے سیکریٹری، چیف ایگزیکٹو افسر، انسپکٹر جنرل، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو فریق بنایا تھا۔

درخواست میں عدالت سے 31 اکتوبر، 2019 کو پیش آنے والے 7-اپ تیزگام ایکسپریس کے حادثے کی جوڈیشل انکوائری کروانے اور وزارت ریلوے کی جانب سے سانحے کے متاثرین کے قیمتی حقوق کو نقصان پہنچانے اور مادی حقائق دبانے سے متعلق احکامات واپس لینے کی استدعا کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 'سیکریٹری ریلوے نے نااہل سینئر گریڈ افسران کو ناجائز فائدے کی اجازت دے کر ریلویز ایکٹ، 1980 کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کی ہے جس سے مختلف گروہوں میں افراتفری اور خوف پھیل گیا ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں