طالبان حملوں میں افغان فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں کے بعد امریکا کا جوابی فضائی حملہ

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2020
حملے ایسے موقع پر سامنے آئے جب طالبان رہنما ملا بردار اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا — فائل فوٹو:اے ایف پی
حملے ایسے موقع پر سامنے آئے جب طالبان رہنما ملا بردار اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا — فائل فوٹو:اے ایف پی

افغانستان میں امن کے لیے دو اہم فریق طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد بھی حالات میں بہتری نظر نہیں آرہی اور طالبان کی جانب سے افغان فورسز پر حملوں کے نتیجے میں 20 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد امریکا نے عسکریت پسندوں پر فضائی حملہ کردیا۔

واضح رہے واشنگٹن کی جانب سے امریکا-طالبان معاہدے کے بعد طالبان جنگجوؤں پر یہ پہلا فضائی حملہ ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے صوبے قندوز کی صوبائی کونسل کے رکن صفی اللہ امیری کا کہنا تھا کہ 'ضلع امام صاحب میں کم از کم 3 فوجی چیک پوسٹس پر طالبان کے حملے میں 10 فوجی اور 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے'۔

وزارت دفاع کے حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کی جبکہ صوبائی پولیس ترجمان ہجرت اللہ اکبری نے پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی۔

ادھر طالبان نے وسطی اروزگان صوبے میں بھی پولیس پر حملہ کیا جس کے بارے میں گورنر کے ترجمان زرگئی عبادی کا کہنا تھا کہ 'بدقسمتی سے 6 پولیس اہلکار ہلاک اور 7 زخمی ہوئے'۔

حالیہ واقعات کے بعد افغان امن مرحلے پر شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں جبکہ طالبان کابل سے 10 مارچ کو طے شدہ مذاکرات سے قبل معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے افغان صدر اشرف غنی نے مسترد کردیا ہے۔

دوسری جانب طالبان کے حملوں کے بعد امریکا نے بھی صوبے ہلمند میں عسکریت پسند گروہ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا.

امریکی افواج کے ترجمان نے بتایا کہ امریکا نے جنوبی صوبے ہلمند میں طالبان پر فضائی حملہ کیا۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا طالبان رہنما ملا برادر سے ٹیلی فونک رابطہ

افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لیگیٹ کا کہنا تھا کہ 'طالبان جنگجو (افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز) کی چیک پوائنٹ پر مسلسل حملے کر رہے ہیں، یہ ان حملوں کو روکنے کے لیے دفاعی حملہ تھا'۔

ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ واشنگٹن امن کے لیے پُرعزم ہے تاہم طالبان کو 'غیر ضروری' حملے بند کرنے چاہئیں اور معاہدے میں کیے گئے اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہیے۔

ٹرمپ کی طالبان رہنما ملا برادر سے گفتگو

خیال رہے کہ یہ حملہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے سیاسی سربراہ ملابرادر سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ پاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بغیر کسی کا نام لیے کہا تھا کہ ان کی 'طالبان رہنما کے ساتھ بہت اچھی گفتگو رہی'۔

بعد ازاں وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ اور ملا عبدالغنی برادر کے درمیان گفتگو کی تصدیق اور کہا کہ امریکی صدر نے طالبان پر افغان حکومت سے مذاکرات میں شرکت کے لیے زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کا قیدیوں کی رہائی تک بین الافغان مذاکرات نہ کرنے کا اعلان

ادھر طالبان نے بیان میں کہا تھا کہ ٹرمپ نے افغانوں کو 'سخت لوگ' کہہ کر پکارا اور کہا کہ 'آپ کے پاس ایک عظیم ملک ہے اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ آپ اپنی زمین کے لیے لڑ رہے ہیں'۔

امن معاہدہ

یاد رہے کہ امریکا-طالبان کے درمیان 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت افغانستان سے 14 ماہ میں غیر ملکی فورسز کا انخلا ہونا ہے جبکہ طالبان سے اس کے بدلے سیکیورٹی ضمانت اور کابل انتظامیہ سے مذاکرات کا کہا گیا۔

تاہم قیدیوں کے تبادلے پر تنازع نے سوالات کھڑے کردیے ہیں کہ کابل اور طالبان کے درمیان مذاکرات آگے بڑھ پائیں گے یا نہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا-طالبان امن معاہدے پر دستخط کے 2 روز بعد ہی افغانستان میں بم دھماکا

یہ ڈیڈ لاک اس وقت سامنے آیا جب افغان صدر اشرف غنی نے دوحہ میں دستخط ہونے والے معاہدے کے ایک روز بعد ہی ایک قدیویوں کے تبادلے شق کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا ہے'۔

طالبان نے اشرف غنی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ قیدیوں کی رہائی تک بین الافغان مذاکرات نہیں ہوں گے۔

اس بیان کے ایک روز بعد ہی طالبان کے ترجمان نے کابل انتظامیہ کے خلاف حملوں کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔

معاہدے کے تحت افغان حکومت کے پاس طالبان کے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کے بدلے کابل انتظامیہ کے پاس موجود طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا ہونا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں