وزارت خارجہ نے اٹلی کے شہر میلان میں کورونا وائرس سے ایک پاکستانی کی ہلاکت کی تصدیق کردی۔

دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے کہا کہ گزشتہ کئی برس سے اٹلی میں مقیم پاکستانی کورونا وائرس سے ہلاک ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ متاثرہ پاکستانی کے طبی ٹیسٹ میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: پی آئی اے کا قطر کے بعد اٹلی کیلئے بھی فلائٹ آپریشن معطل

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق 65 سالہ متوفی اٹلی کے شہر میلان سے تقریباً 100 کلو میٹر دور بریسیا شہر میں مقیم تھا۔

عائشہ فاروقی نے کہا کہ متوفی کی لاش پاکستان منتقل کرنے کی غرض سے پاکستانی اور اطالوی حکام مسلسل رابطے میں ہیں۔

واضح رہے کہ یورپ کے مشہور ترین سیاحتی ملک میں سے ایک اٹلی میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے باعث ملک کے تمام 6 کروڑ عوام کو گھروں تک محدود کردیا گیا ہے اور کسی بھی قسم کی چھوٹی یا بڑی تقریبات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس 19 دسمبر کو چین میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آیا تھا اور یہ وائرس اب تک دنیا کے 108 ممالک میں پھیل چکا ہے جس سے متاثرین کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: پی آئی اے نے قطر کیلئے فلائٹ آپریشن معطل کردیا

سرکاری حکمنامے کے بعد اٹلی کے تمام بڑے شہروں کی گلیاں اور مشہور مقامات پر سناٹے کا راج ہے اور چند مقامات پر اکا دکا لوگ نظر آرہے ہیں۔

اٹلی کے وزیر اعظم نے عوام سے گھروں میں رہنے کی درخواست کی ہے جہاں 3 اپریل تک ملک بھر میں غیر معمولی اقدامات کرتے ہوئے پیر کی رات جاری کیے گئے حکمنامے کے ذریعے تمام 6 کروڑ عوام کو گھروں تک محدود کردیا گیا ہے۔

کورونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک 3 ہزار 800 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ 62 ہزار 53 افراد اس وائرس سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور انہیں مکمل صحت یاب ہونے پر ہسپتالوں سے خارج کردیا گیا۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے جو مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں