قوم احتیاط کرے، کورونا وائرس بڑی تیزی سے پھیلتا ہے، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2020
وزیراعظم نے ذخیروہ اندوزوں کو خبردار کیا—فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم نے ذخیروہ اندوزوں کو خبردار کیا—فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی خاصیت تیزی سے پھیلنا ہے لیکن اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ بحیثیت قوم اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'میرے پاکستانیو! آج میں آپ سے کورونا وائرس کی بات کروں گا، سب کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اس سے ملک میں افراتفری پھیل رہی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سب سے پہلے ہم نے 15 جنوری کو فیصلہ کیا کہ کورونا وائرس پر ایکشن کرنے لگے ہیں کیونکہ چین میں تب وائرس پھیل چکا تھا اور اگر چین سے لوگ پاکستان آئیں گے اور یہ وائرس ایک فلو ہے، جس کی خاصیت ہے کہ بڑی تیزی سے پھیلتا ہے'۔

مزید پڑھیں:عوام نے احتیاط نہ کی تو لاکھوں افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں، ایران کا انتباہ

انہوں نے کہا کہ'دوسری طرف آپ کو مطمئن ہونا چاہیے کہ کورونا کے 97 فیصد کیسز ٹھیک ہوجاتے ہیں، ان میں سے 90 فیصد ایسے کیسز ہیں جن میں معمولی یعنی کھانسی اور زکام ہوا اور ٹھیک ہوگئے اور صرف 4 یا 5 فیصد کو ہسپتال جانا پڑتا ہے'۔

کورونا وائرس کی صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'دنیا میں اب تک تقریباً ایک لاکھ 90 ہزار کیسز ہوگئے ہیں جب اتنے زیادہ کیسز ہوں تو ملک کے ہسپتال اور سہولیات کے زیادہ کیسز ہوتے ہیں'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'اس کی خطرناک بات یہ ہے کہ یہ تیز پھیلتا ہے، دوسری طرف 100 لوگوں کو کورونا ہوتا ہے تو 3 فیصد لوگ کون ہیں جن کے لیے خطرناک ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی عمر زیادہ اور مدافعتی نظام کمزور ہے یا پہلے سے ہی کسی بیماری کا شکار ہیں یا سینے کا انفکیشن ہے تو ان کے لیے خطرناک ہے اس لیے پہلے سمجھیں کہ کورونا کیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'جیسے ہی ہمیں کورونا کا پتہ چلا تو چین سے ہماری مسلسل بات ہونے لگی، اس کے بعد کورونا ہمارے دوسرے ہمسایہ ایران میں گیا جہاں قُم میں شروع ہوا، جو زائرین وہاں گئے تھے وہ متاثر ہوئے اور ہم ایران کی حکومت سے مسلسل رابطے میں تھے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'وہ زائرین بلوچستان سے آرہے تھے جو ایک ایسا ویران علاقہ ہے جہاں ان کو ڈاکٹر اور سہولیات پہنچانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ تفتان کی سرحد ویران ہے اس لیے میں خاص طور پر بلوچستان کی حکومت اور پاکستان فوج کو داد دیتا ہوں'۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت اور پاک فوج کو داد دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'انہوں نے بڑے مشکل حالات میں مل کر پوری کوشش کی کہ جو زائرین آرہے تھے انہیں قرنطینہ میں رکھا اور وہاں سے بھی نکالیں، یہ بڑا مشکل کام تھا جس کو میں مسلسل دیکھ رہا تھا'۔

'9 لاکھ افراد کی اسکریننگ ہوئی'

عمران خان نے کہا کہ 'ہمارے ردعمل کو سمجھنا پاکستانی قوم کے لیے ضروری ہے، ہم نے 15 جنوری سے اقدامات شروع کیے، ایئرپورٹ پر اسکریننگ شروع کی اور اب تک 9 لاکھ لوگوں کی ایئرپورٹ پر اسکریننگ کر چکے ہیں'۔

قوم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ 'پاکستان میں پہلا کیس 26 فروری کو آیا، دنیا بھر میں تیزی سے پھیلا تو اس لیے ہمیں پتہ تھا کہ پاکستان میں بھی پھیلے گا، پچھلے ہفتے جب پاکستان میں 20 کیس سامنے آئے تو ہم نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلایا'۔

یہ بھی پڑھیں:کورونا وائرس کے خلاف مسلم ممالک کے اقدامات

انہوں نے کہا کہ 'جب کمیٹی کا اجلاس طلب کیا تو ہم نے دنیا کے اقدامات کا جائزہ لیا، اٹلی نے شروع میں کچھ نہیں کیا اور پھر کیسز بڑھنے لگے تو ایک دم اٹلی کو لاک ڈاؤن کرلیا، برطانیہ میں ابھی تک اور طرح لے رہے ہیں اور ان کی مختلف اپروچ ہے'۔

دنیا بھر میں کیے گئے اقدامات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'امریکا نے شروع میں کچھ نہیں کیا اور اب ردعمل میں پورے کے پورے شہر بند کردیے ہیں اور جب 20 کیس آئے تو ہم سوچ رہے تھے کہ شہر بند کریں'۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 'ہمارے شہروں کو بھی بند کرنے کی ایک تجویز آئی تھی لیکن میں آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے حالات وہ نہیں ہیں جو امریکا اور یورپ میں ہیں، ہمارے ملک میں غربت ہے اور 25 فیصد لوگ شدید غربت میں ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ایک مشکل وقت سے نکل رہے ہیں، ہمارے معاشی حالات اور 2019 بڑا مشکل سال تھا، بے روزگاری، کاروبار سست چل رہے تھے اور جس طرح ہم نے بہتری کی ہے، تب ہم نے سوچا کہ اگر شہروں کو بند کر دیتے ہیں تو یہاں لوگوں کے حالات پہلے سے برے ہیں'۔

شہروں کو لاک ڈاؤن نہ کرنے کے فیصلے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ایک طرف سے کورونا وائرس سے بچائیں گے اور دوسری طرف لوگ بھوک سے مرجائیں گے، ہمارے غریب لوگ کا کیا بنے گا، لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا تھا'۔

حکومتی اقدامات

حکومتی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے فیصلہ کیا جہاں بھی عوام جمع ہوسکتے ہیں، کرکٹ میچ، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں چھٹیاں دی اور ان کو بند کردیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے دو کام کیے، ایک قومی رابطہ کمیٹی بنائی، اس کے دو پہلو ہیں جو ایک طرف وزرائے اعلیٰ سے رابطے میں اور این ڈی ایم اے سے رابطے میں ہے جس کا کام یہ ہے جب ملک کے اندر زلزلہ یا سیلاب آئے تو این ڈی ایم اے اس کو دیکھتا ہے جس کو ہم نے فعال کیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'این ڈی ایم اے کو ہم نے پیسے دیے اور ان کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ دنیا سے جو بھی چیزیں ضرورت ہیں، جس میں ماسک پاکستان میں کافی ہیں لیکن وینٹی لیٹر کا احساس ہوا کہ اگر یہ بیماری پھیلتی ہے تو یہ 4، 5 فیصد لوگوں کو شدید کورونا کا حملہ ہوگا تو ان کو وینٹی لیٹرز چاہیے ہوں گے'۔

مزید پڑھیں:چاروں صوبوں میں کورونا کے مزید 55 کیسز، ملک میں متاثرین کی تعداد 237 ہوگئی

وزیراعظم نے کہا کہ 'ہم نے وینٹی لیٹرز کے لیے آرڈرز دیے ہیں اور اس پر بھی ہم نے این ڈی ایم اے کو لگادیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہمارے طبی ماہرین کی ایک کور کمیٹی ہے جو انفیکشنز ڈیزیز کے ڈاکٹر ہیں جو مسلسل کمیٹی کو تجاویز دے رہے ہیں، یہ دنیا کو بھی دیکھ رہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'دنیا میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں، اٹلی کا مختلف انداز ہے اور برطانیہ کا بالکل مختلف، ہم دیکھ رہے ہیں ان سے کیا سیکھ سکتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج ہمارے صدر عارف علوی چین گئے ہوئے ہیں اور کل واپس آئیں گے اور ان سے کہا ہے کہ ہم چین سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں اگر یہ وائرس پھیلتا تو ہم اس کو کیسے کنٹرول کریں گے، چین پہلے ہی ہمارے ساتھ تعاون کر رہا ہے'۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'آپ سب کے لیے کہہ رہا ہوں کہ اس وائرس نے پھیلنا ہے، یہ اپنے ذہن میں ڈال دیں کہ ہم نے کوشش پوری کرنی ہے، جس طرح دنیا میں جن کے پاس ہمارے سے زیادہ بہتر میڈیکل نظام، ہسپتال اور ادارے بھی مضبوط ہیں، وہاں تیزی سے وائرس پھیل رہا ہے'۔

قوم کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ 'یہ سمجھ جائیں کہ وائرس یہاں بھی پھیلے گا لیکن اس کو روکنے کے لیے انسان کوشش کرسکتا ہے'۔

معاشی اثرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہم نے پہلے رابطہ کمیٹی بنائی اور دوسری ہماری معاشی کمیٹی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جو بھی اس کے نقصانات ہوں گے مثلاً دنیا میں تیل کی قیمتیں گری ہیں، دنیا میں برآمدات گرنا شروع ہوئی ہیں، سیاحت کے شعبے کا برا حال ہوگیا ہے، ایئرلائنز میں مشکلات آگئی ہیں تو پاکستان کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا'۔

یہ بھی پڑھیں:کورونا وائرس کے باعث اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل دوسرے روز بھی شدید مندی

عمران خان نے کہا کہ 'سب سے پہلے ہمارے برآمدات پر اثر آئے گا جو بڑی مشکل سے بہتر ہوئی تھی اور ٹیکسٹائل پوری طرح چل رہی ہے، دوسرا کاروبار پر اثر پڑے مثلاً شادی ہال بند ہیں اور دیگر ہیں اور اس کمیٹی کا یہ مقصد ہوگا کہ ہر روز دیکھے گی کہ کون کون سے شعبے اس کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں ہم اس کی مدد کیسے کرسکتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم آئی ایم ایف سے بھی بات کریں گے کیونکہ ان کی شرائط بھی ہیں، ہمیں اپنی صنعتوں اور برآمد کنندگان کو ریلیف دینا پڑے گا جس پر ہم نے پوری نظر رکھی ہوئی ہے، خاص طور پر یہ کمیٹی دیکھے گی کہ مہنگائی نہ ہو'۔

'ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ریاست کارروائی کرے گی'

معاشی کمیٹی کی ذمہ داریوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'کمیٹی کھانے پینے کی چیزوں پر مہنگائی نہیں ہونے دے گی اور اس لیے کہ مجھے خوف ہے اور خدشہ ہے کہ جس طرح پہلے چینی اور آٹے پر ذخیرہ اندوزی کرکے مہنگائی کی گئی اسی طرح پھر کوشش کی جائے گی'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'میں آج خاص طور پر ان سب لوگوں کو جو ذخیرہ اندوزی کا سوچ رہے ہیں ان کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آپ کے خلاف ہمارا ردعمل بڑا برا ہوگا، پوری ریاست آپ کے خلاف کارروائی کرے گی اور جس جس نے عوام کی تکالیف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اس کے خلاف کارروائی کرکے سزا دی جائے گی'۔

عوام کو تجویز دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ '5 چیزوں پر نظر رکھنی کیونکہ ضروری ہے کہ کورونا وائرس کی یہ جنگ حکومت اکیلے نہیں لڑسکتی ہے، دنیا میں کوئی حکومت اکیلے نہیں لڑ رہی ہے، چین میں عوام اور حکومت نے مل کر لڑا ہے یعنی ایک قوم لڑتی ہے، اس لیے بحیثیت قوم ہمیں یہ جنگ جیتنی ہے'۔

قوم سے انہوں نے کہا کہ 'آپ نے پوری ذمہ داری لینی ہے اور احتیاط کرنی ہے، جہاں بڑے اجتماع ہیں وہاں نہیں جانا ہے، 40 افراد سے زائد کے اجتماع میں جانے سے گریز کریں، بند کمروں میں جہاں زیادہ لوگ جمع ہوتے ہیں وہاں بھی وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے اس لیے اس سے بھی اجتناب کریں'۔

انہوں نے کہا کہ 'پوری دنیا میں دیکھا جارہا ہے کہ وائرس ہاتھ ملانے سے تیزی سے پھیل رہا ہے، اس لیے ہاتھ نہیں ملانا اور ہاتھوں کو اچھی طرح صابن سے دھونا اور صفائی پر زور دینا ہے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'جو لوگ باہر سے آرہے ہیں، خود احتیاط کرنی ہے، انہوں نے بھی جو باہر سے آئے وہ اپنے آپ کو کچھ دیر کے لیے اکیلے میں رکھیں کیونکہ وائرس جتنا بھی آیا ہے وہ باہر سے آیا ہے، اور دوسری چیز جہاں وہ جاتے ہیں ان کو تھوڑی دیر دیکھیں کہ کیا ان کو وائرس ہے یا نہیں جو دو ہفتوں میں واضح ہوجائے گا اور بیرون ملک سے آنے والے افراد پر احتیاط کرنی ہے'۔

'ہر کوئی کورونا ٹیسٹ کے لیے ہسپتال نہیں جائے'

چوتھی تجویز دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'اگر آپ کو کھانسی یا زکام ہوجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو کورونا ہوگیا ہے، اور تھوڑی سی چیز پر ٹیسٹ کرانے نہ چلے جائیں کیونکہ اتنے وسائل ہونے کے باوجود امریکا جیسے ملک میں بھی جو آئے ان کا کورونا کے ٹیسٹ کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب بھی کھانسی ہو اور زکام ہو تو ٹیسٹ کرانے کے لیے ہسپتال جائیں تو دنیا میں کہیں بھی ہسپتالوں میں اتنی سہولتیں نہیں ہیں کہ ہر کسی کے ٹیسٹ کیے جائیں اور جن لوگوں کو شدت اختیار کرجائے صرف ان کو ہسپتال جانا چاہیے'۔

مزید پڑھیں:سندھ حکومت کا ریسٹورنٹس، شاپنگ مالز 15 روز کیلئے بند کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ 'جہاں آج ہم ہیں سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے، ہمارے نبیﷺ نے واضح طور پر کہا ہے کہ احتیاط کرو اور سب کے لیے ضروری ہے کہ احتیاط کریں، گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے قوم کی حیثیت سے ہم اس کا مقابلہ کریں گے اور انشااللہ ہم یہ جنگ جیتیں گے'۔

طبی عملے کو انہوں نے کہا کہ 'آپ کو جہاد کرنا ہے اور ہم سے جو ہو سکا سہولت اور مشینری فراہم کریں گے جس کے لیے تیاری کر رہے ہیں اور بھرپور مدد کریں گے۔'

وزیراعظم نے بیرون ملک پاکستانیوں کو مخاطب کرکے کہا کہ ہمیں آپ کی مشکلات کا احساس ہے اور سفارت خانوں کو کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی پوری طرح مدد کی جائے۔

چین میں موجود پاکستانیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے خاص طور پر جو ہمارے طلبہ ووہان میں پھنسے ہوئے ہیں ان کی مشکلات کا پتہ ہے جس کا انہیں سامنا کرنا پڑا خاص طور پر ان کے والدین کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا بھی احساس ہے لیکن خوش خبری ہے کہ چین نے تقریباً قابو پالیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دنیا میں کورونا کے کیسز اوپر جارہے ہیں اور چین میں نیچے آرہے ہیں اور انشااللہ آپ کو زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا'۔

علمائے کرام سے وزیر اعظم نے کہا کہ آپ کی بڑی ذمہ داری ہے اور لوگوں کو مسلسل آگاہ کرنا پڑے گا کہ ان کو اس مشکل وقت میں کس طرح احتیاط کرنی ہے اور اس مشکل وقت سے کیسے گزرنا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں