خاشقجی قتل کیس: ترکی میں 20 سعودی شہریوں پر فرد جرم عائد

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2020
جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے—فائل/فوٹو:اے پی
جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے—فائل/فوٹو:اے پی

ترکی کے پراسیکیوٹر نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دو قریبی ساتھیوں سمیت 20 افراد پر باقاعدہ فرد جرم عائد کردی۔

برطانوی ویب سائٹ 'گارجین' کی رپورٹ کے مطابق استنبول میں چیف پراسیکیوٹر آفس کے عہدیدار عرفان فدین کا کہنا تھا کہ ترکی میں سعودی عرب کے سفارت خانے میں 2018 میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی شاہی عدالت کے سابق مشیر سعود القحطانی اور خفیہ ایجنسی کے نائب سربراہ احمد ال اسیری بھی فرد جرم عائد ہونے والے افراد میں شامل ہیں۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ تین انٹیلی جنس افسران کے تعاون سے 15 افراد استنبول پہنچے جہاں انہوں نے مذکورہ دونوں افراد کے احکامات بجا لائے۔

مزید پڑھیں:سعودی صحافی خاشقجی کے قتل کے الزام میں 5 افراد کو سزائے موت

یاد رہے کہ اکتوبر 2018 میں جب جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے مشتبہ کردار کی خبریں سامنے آئی تھیں جس کے بعد سعودی عرب کے اپنے اتحادیوں سے تعلقات خراب ہوئے جن میں امریکا سرفہرست تھا۔

امریکی صدر نے سعودی عرب کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں، بعد ازاں سعودی ولی عہد کے خاشقجی کے قتل کی شفاف تحقیقات کے وعدے پر دونوں اتحادیوں کے درمیان تعلقات معمول پر آگئے تھے۔

سی آئی اے سمیت کئی مغربی حکومتیں اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا، تاہم سعودی عرب نے ان خبروں کو مسترد کرتے ہوئے اس کو جھوٹ قرار دیا تھا۔

ترک پراسیکیوٹر نے حتمی سماعت کی تاریخ دیے بغیر کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے گئے تھے لیکن ملک میں عدم موجودگی کے باوجود ٹرائل شروع ہوگا۔

ترکی تمام 20 ملزمان کو عمر قید کی سزا دینے کے حق میں ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب نے اپنے شہریوں کو ٹرائل کے لیے ترکی کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔

گزشتہ برس دسمبر میں سعودی عرب کی ایک عدالت نے جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں 5 نامعلوم افراد کو سزائے موت سنادی تھی جبکہ ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی افراد پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:’جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے حکم پر ہوا‘

ریاض میں پریس کانفرنس کے دوران پبلک پراسیکیوٹر نے سزاؤں کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ دیگر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

سعودی پراسیکیوٹر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ عدالت نے 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی جس میں سے تین کو بری کردیا گیا۔

عدالت نے متاثرہ شخص کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت کا حکم دیا تھا جبکہ قتل کو چھپانے اور قانون کی خلاف ورزی پر تین افراد کو مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ مقدمے کی تحقیقات میں 31 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 21 کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ 10 افراد کو صرف سوال جواب کے لیے طلب کیا گیا کیونکہ عدالت کے پاس انہیں حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

اس مقدمے میں سعودی شاہی عدالت کے سابق مشیر اور کنسلٹنٹ سعود القحطانی پر بھی الزام تھا کہ انہوں نے قتل کی مکمل منصوبہ بندی کی جس کی وجہ سے انہیں تفتیش کا سامنا کرنا پڑا لیکن الزام ثابت نہ ہونے پر انہیں بری کردیا گیا تھا۔

ان کے علاوہ عدالت نے ناکافی شواہد کی بنا پر سابق ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد ال اسیری کو بھی بری کردیا تھا۔

جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟

سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی 2017 سے امریکا میں مقیم تھے۔

تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا۔

ترک حکام نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

12 اکتوبر 2018 کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

17 اکتوبر کو جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔

دریں اثنا 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

علاوہ ازیں امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔

مزید برآں دسمبر میں امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دینے سے متعلق قرارداد منظور کی جس میں سعودی حکومت سے جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ داران کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

گزشتہ برس جنوری میں ریاض کی عدالت میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے 11 میں سے 5 مبینہ قاتلوں کی سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم اقوام متحدہ نے ٹرائل کو 'ناکافی' قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح ٹرائل کی شفافیت کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی قتل: آڈیو ریکارڈنگ کی نئی تفصیلات جاری

بعد ازاں اپریل 2019 میں ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کیس میں جن 11 افراد کے خلاف ٹرائل چل رہا ہے ان میں سعودی ولی عہد کے شاہی مشیر سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔

اقوام متحدہ نے جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کے لیے 3 رکنی ٹیم تشکیل دی تھی، ٹیم کی سربراہ اگنیس کیلامارڈ نے جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں گرفتار مشتبہ ملزمان کی خفیہ سماعت کو عالمی معیار کے خلاف قرار دیتے ہوئے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔

بعد ازاں جون میں اقوام متحدہ نے تحقیقاتی رپورٹ میں کہا تھا کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر سینئر سعودی عہدیدار صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔

اگنیس کیلامارڈ نے رپورٹ میں مطالبہ کیا تھا کہ اس قتل کے حوالے سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی تفتیش کی جائے۔

اس دوران سعودی عرب کی جانب سے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے 4 بچوں کو 'خون بہا' میں لاکھوں ڈالر مالیت کے گھر اور ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں ڈالر رقم دینے کا انکشاف بھی ہوا تاہم جمال خاشقجی کے خاندان نے سعودی انتظامیہ سے عدالت کے باہر مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کی تردید کردی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

کاشف حیدر Mar 26, 2020 01:19am
کیا سعودی حکام نے بتا سکتے ہیں کہ اس مظلوم صحافی کے لاش کی باقیات کدھر ہیں؟