بھارت شہریت قانون کو منسوخ کرے، ہیومن رائٹس واچ کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 12 اپريل 2020
رپورٹ کے مطابق ملک کے سب سے بڑے اقلیتی گروہ اور دیگر برادریوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
رپورٹ کے مطابق ملک کے سب سے بڑے اقلیتی گروہ اور دیگر برادریوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی ایک معروف بین الاقوامی تنظیم نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امتیازی سلوک کے حامل شہریت ترمیمی قانون اور پالیسیوں کو منسوخ کرے جس سے لاکھوں بھارتی مسلمانوں کے حقوق کو خطرہ ہے اور ملک کے سب سے بڑے اقلیتی گروہ اور دیگر برادریوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے ’باغیوں کو گولی ماردو: بھارت کے شہریت ترمیمی قانون کے تحت مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک‘ کے نام سے ایک 82 صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی ہے، جس میں ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ متنازع شہریت ترمیمی قانون کے تحت غیرقانونی تارکین وطن کی شناخت کے نام پر لاکھوں بھارتی مسلمانوں کے شہریت کے لیے خطرہ پیدا کردیا۔

مزیدپڑھین: بھارت: متنازع شہریت قانون کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’وزیر داخلہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دیگر رہنماؤں کے بیانات سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ لاکھوں بھارتی مسلمان، جن میں بہت سارے خاندان کئی نسلوں سے ملک میں رہ رہے ہیں، ان سے ان کی شہریت کا حق چھین لیا جائے گا‘۔

واضح رہے کہ دسمبر 2019 میں ہندو قوم پرست بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے متنازع ایکٹ کو منظور کیا تھا، جس میں پہلی مرتبہ مذہب کو شہریت کی بنیاد بنایا گیا۔

ایچ آر ڈبلیو نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ جب شہریوں کی نئی پالیسیوں پر احتجاج کرنے والوں پر حکومتی حامیوں نے حملہ کیا تو پولیس اور دیگر اہلکار بار بار مداخلت کرنے میں ناکام رہے تھے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پولیس پالیسی کے ناقدین کو گرفتار کرنے اور ان کے پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے میں ضرورت سے زیادہ اور مہلک طاقت کا استعمال کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘ متنازع شہریت قانون پر ہندو طالبہ کا ردعمل

ایچ آر ڈبلیو ساؤتھ ایشیا کے ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں نے تشدد کا راستہ کھول دیا ہے اور پولیس کے عدم فعال ہونے کی وجہ سے پورے ملک میں مسلمان اور دیگر اقلیتی برادری خوف میں مبتلا ہیں۔

ایچ آر ڈبلیو نے بھارت کو باور کرایا کہ اقوام متحدہ اور متعدد حکومتوں نے مذہب کی بنیاد پر شہریت کے قانون کو امتیازی سلوک قرار دینے کی عوامی سطح پر تنقید کی ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دہلی میں فروری 2020 میں فرقہ وارانہ جھڑپوں اور مسلمانوں پر ہندو ہجوم کے حملوں کے نتیجے میں 50 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گواہوں کے بیانات اور ویڈیو ثبوت میں پولیس کی مداخلت و تشدد ظاہر ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں خاص طور پر اتر پردیش میں مظاہروں کے دوران کم از کم 30 افراد جاں بحق ہوئے جو زیادہ تر مسلمان تھے۔

مزید پڑھیں: غیرمسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کا بل لوک سبھا میں پیش

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ غیر ملکی ٹریبونلز جو آسام میں شہریت کا فیصلہ کرتا ہے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور ہندوؤں کے مقابلے میں غیرمعمولی تعداد میں مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دیا گیا۔

ایچ آر ڈبلیو نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ مذکورہ قانون کو منسوخ کرے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ کسی بھی قومی، سیاسی پناہ اور پناہ گزین کی پالیسی سے متعلق امتیازی سلوک نہ روا رکھا جائے۔


یہ خبر 12 اپریل 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں