ترکی نے سعودی عرب، یو اے ای کے سرکاری خبر رساں ویب سائٹس پر پابندی لگادی

اپ ڈیٹ 20 اپريل 2020
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا جب رواں ماہ کے آغاز میں سعودی عرب نے ترکی کی میڈیا ویب سائٹس پر پابندی عائد کی تھی 
 — فوٹو:شٹر اسٹاک
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا جب رواں ماہ کے آغاز میں سعودی عرب نے ترکی کی میڈیا ویب سائٹس پر پابندی عائد کی تھی — فوٹو:شٹر اسٹاک

ترکی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے سرکاری خبر رساں اداروں کی ویب سائٹس پر پابندی لگادی۔

یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا جب رواں ماہ کے آغاز میں سعودی عرب نے ترکی کی سرکاری میڈیا ویب سائٹس پر پابندی عائد کی تھی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ترک حکام نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی سرکاری نشریات اور نیوز ایجنسیز کی ویب سائٹس کو بند کردیا۔

ترکی کا یہ اقدام ترک پراسیکیوٹرز کی جانب سے استنبول میں سعودی سفارتخانے کے 20 افراد پر صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں فرد جرم عائد کیے جانے کے 4 ہفتوں بعد سامنے آیا۔

مزید پڑھیں: 'یو این انٹرنیٹ کنٹرول کے لیے مناسب فورم نہیں'

ترکی میں انٹرنیٹ صارفین جو سعودی خبررساں اداروں سمیت درجن بھر دیگر ویب سائٹس کھولنا چاہ رہے ہیں انہیں ایک پیغام موصول ہوتا ہے کہ یہ انٹرنیٹ پبلیکیشنز قوانین کے تحت بند کی گئی ہیں۔

ترکی کے وزارت انصاف کے ترجمان نے اس حوالے سے رائے دینے سے انکار کردیا جبکہ سعودی عرب کے سرکاری میڈیا آفس نے بھی رائٹرز کی درخواست پر فوری رد عمل دینے سے انکار کیا۔

سعودی کمپنی کے زیر انتظام چلنے والی برطانوی انڈیپنڈنٹ نیوز پیپر کی ترک ویب سائٹ بھی بند ہونے والی ویب سائٹس میں شامل تھی۔

اس اقدام پر ویب سائٹ کے ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ یہ ریاض اور انقرہ کے درمیان سیاسی کشیددگی کے باعث ہے۔

ایڈیٹر نوزار چیچک کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا ماننا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے درمیان کشیدگی کا ہم پر اثر پڑا ہے، یہ فیصلہ سعودی عرب کے بدلے میں تھا‘۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں سعودی عرب نے ترک نیوز ایجنسی اناطولو کے ساتھ نشریاتی ویب سائٹ ٹی آر ٹی کو بند کردیا تھا۔

اناطولو کے مطابق سعودیہ کے المرساد اخبار کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ 11 اپریل کو کئی ترک میڈیا اداروں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا وائرس سے مزید 8 اموات، متاثرین کی تعداد 8425 ہوگئی

ان کا کہنا تھا کہ ’ان میڈیا اداروں میں سے ایک اناطولو ایجنسی بھی ہے‘۔

ریاض کا یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا جب استنبول کے استغاثہ نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ انہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں 20 سعودی باشندوں پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

ان 20 سعودی شہریوں میں سعودی عرب کے جنرل انٹیلی جنس کے ڈپٹی ہیڈ اور سابق شاہی مشیر بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ اکتوبر 2018 کو استنبول میں سعودی سفارتحانے میں جمال خاشقجی کے قتل پر عالمی سطح پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا جس کی وجہ سے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا تھا۔

چند مغربی حکومت بشمول سی آئی اے کا ماننا ہے کہ محمد بن سلمان ہی نے اس قتل کے احکامات جاری کیے تھے تاہم سعودی حکام نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں