نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا ابھی کوئی علاج دستیاب نہیں اور سائنسدان ویکسین اور ادویات کی تیاری کے لیے بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں اس وقت دستیاب ادویات کو بھی علاج کے لیے آزمایا جارہا ہے، جن میں انسداد ملیریا کی ادویات، ایبولا کے لیے تیار ہونے والی دوا ریمیڈیسیور ، فلو اور ایچ آئی وی کی ادویات قابل ذکر ہیں۔

اب امریکا میں سائنسدانوں نے ایک ورم کش دوا کو کووڈ 19 کے مریضوں کو فوری طور پر گھروں میں فراہم کرنے کی مںصوبہ بندی کی گئی ہے تاکہ دیکھا جاسکے کہ اس کے اثر سے ان کی صحت میں کس حد تک بہتری آتی ہے۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی سان فرانسسکو اور نیویارک یونیورسٹی اسکول آف میڈسین کی جانب سے کورونا وائرس کی تشخیص ہونے کے بعد 48 گھنٹوں میں ورم کش دوا کولچیسین گھروں میں فراہم کی جائے گی۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر پریسیلا ہیوز نے بتایا کہ اس تحقیق کا آغاز منگل سے کیلیفورنیا میں ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیق میں شال افراد گھر پر ہی قیام کریں گے، جس سے دیگر کے لیے خطرہ کم ہوگا، حفاظتی ملبوسات اور سفر کی ضرورت بھی زیادہ نہیں ہوگی۔

ان کے بقول ہمارا ماننا ہے کہ یہ حکمت عملی عالمی سطح پر اپنائی جاسکتی ہے جس کے لیے بہت زیادہ وسائل کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔

اس دوا کو ابھی گھٹیا ،جینیاتی عارضے Familial Mediterranean Fever اور خون کی شریانوں کے ورم کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس دوا کو صرف امریکا میں نہیں بلکہ بہت جلد کینیڈا کے مانیٹریال ہارٹ انسیٹوٹ اور یورپ میں بھی اس کی آزمائش شروع ہوگی۔

مجموعی طور پر 6 ہزار مریضوں کو ان ٹرائلز کا حصہ بنایا جائے گا۔

ان ٹرائلز میں کم از کم 40 سال یا اس سے زائد عمر کے ایسے مریضوں کو شامل کیا جائے گا جو پہلے سے دیگر امراض جیسے ذیابیطس، امراض قلب، پھیپھڑوں کی بیماریاں یا زیادہ عمر جیسے خطرہ بڑھانے والے عناصر کا شکار ہوں گے۔

جو لوگ اس معیار پر پورے اتریں گے، ان سے فون پر رابطہ کرکے ٹرائل میں شرکت کی دعوت دی جائے گی، اگر وہ قبول کرلیں گے تو ان سے ڈیجیٹل اجازت نامہ سائن کرایا جائے گا۔

اس کے بعد کورئیر کے ذریعے چند گھنٹوں میں دوا کو ان کے گھر تک پہنچایا جائے گا، جس کے 15 سے 30 دن بعد محققین کی جانب سے فون یا ویڈیو چیٹ کے ذریعے رضاکاروں کی صحت کا جائزہ لیا جائے گا۔

امریکی محققین کا کہنا تھا کہ یہ کووڈ 19 کے ان محدود ٹرائلز میں سے ایک ہے جو ایسے مریضوں پر کیا جارہا ہے جو ابھی ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے۔

انہیں توقع ہے کہ اس دوا سے مدافعتی نظام کے بہت زیادہ متحرک ہونے سے جسمانی اعضا کو لاحق خطرات کی روک تھام کی جاسکے۔

سائنسدانوں کے مطابق اس دوا کو دہائیوں سے ورم میں کمی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے ہارٹ اٹیک کے بعد اسے کھانے سے دل کے جان لیوا امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے، جبکہ اس دوا کو محفوظ بھی سمجھا جاتا ہے۔

ان کے بقول جب بیماری کے ابتدائی مرحلے میں اس دوا کو استعمال کیا جائے گا تو ہمیں توقع ہے کہ اس سے ورم میں نمایاں کمی آئے گی جبکہ مدافعتی ردعمل کو بہت زیادہ متحرک ہونے سے روکا جاسکے گا جو کہ کووڈ 19 میں نظام تنفس کی پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ دوا محفوظ ہے اور مریضوں کی سخت مانیٹرنگ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، توقع ہے کہ اس دوا کی خاصیت ہسپتال داخلے اور کووڈ 19 کی شدت میں اضافے کی روک تھام کرسکے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں