اسرائیل اور فلسطین کے درمیان باضابطہ مذاکرات شروع
واشنگٹن: فلسطین اور اسرائیل نے تین سال میں پہلی مرتبہ پیر کے روز مذاکرات بحال کئے ہیں جن میں شامل امریکہ نے فریقین پر زوردیا ہے کہ وہ امن ڈیل کیلئے سخت سمجھوتے کر گزریں۔
اسرائیلی چیف مذاکرات کار زیپی لیونی اور ان کے فلسطینی ہم منصب صائب ایراکت امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے ساتھ ایک دوسرے کے سامنے رمضان افطار ڈنر پر بیٹھے۔
سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں تھامس جیفرسن روم میں کیری نے دونوں فریقین کو خوش آمدید کہتے ہوئے انہیں پھولوں بھری میز تک لے گئے اور کہا کہ آج کا ڈنر ' بہت بہت خاص ہے۔'
اس سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ نے دونوں مذاکراتی ٹیموں سے باری باری ملاقات کی ۔
وہ آج ( منگل) کے روز بھی سہ فریقی مذاکرات کریں گے اور مقامی وقت کے مطابق دونوں مذاکرات کاروں کو لے کر گیارہ بجے پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے۔
مذاکرات میں ایک اہم امریکی سفارتکار مارٹن انڈیک بھی شامل ہیں۔
براک اوبامہ نے مذاکرات کی ابتدا کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اسے ' ایک قدم آگے کی جانب ' سے تعبیر کیا ہے لیکن ' سخت انتخابات' کا لفظ استعمال کرتےہوئے خبردار بھی کیا ہے۔
' آگے چل کر ان مذاکرات کا سخت ترین مرحلہ سامنے آئے گا۔ میں پُراُمید ہوں کہ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں اچھی نیتوں کے تحت ان مذاکرات میں آگے بڑھیں گے،' اوبامہ نے کہا۔
اوبامہ نے وعدہ بھی کیا کہ وہ دونوں طرفین کی حمایت کریں گے۔
کیری نے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا،' مذاکرات کاروں اور خود لیڈروں کیلئے کئی مشکل انتخابات آگے آئیں گے کیونکہ ہمیں سخت، پیچیدہ، علامتی اور حساس معاملات پر سمجھوتے کرنے ہوں گے۔'
' ہم ممکنہ وقت میں کسی معاہدے تک پہنچنے کی بھرپور کوشش کریں گے، لیکن اگر ہم آگے بڑھتے جارہے ہیں تو یہ کوئی ڈیڈلائن نہیں۔' خاتون ترجمان جین ساکی نے کہا۔
مارٹن انڈیک اسرائیل میں دو مرتبہ امریکی سفیر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ ایک
' مشکل اور اعصاب شکن چیلنج ' کام کررہے ہیں۔
لیکن انہوں نے کہا کہ میرا چالس سالہ تجربہ یہی کہتا ہے کہ امن ممکن ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان آخری امن مذاکرات ستمبر دوہزار دس میں اس وقت تھم گئے تھے جب اسرائیل نے آبادکاری دوبارہ شروع کردی تھی۔
ان مذاکرات میں اسرائیلی اور فلسطینیوں کے درمیان بھی گہری خلیج ہے۔
ان معاملات میں یروشلم کی ملکیت شامل ہیں جسے دونوں فریقین اپنی اپنی مملکت کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی، مستقبل کی فلسطینی ریاست کی سرحدیں، اور قبضہ شدہ مغربی کنارے میں درجنوں یہودی بستیوں جیسے گھمبیر مسائل بھی شامل ہیں۔
اس تناظر میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ مذاکرات کا راستہ ' سخت اور مسائل سے بھرپور' ہے۔
تاہم حال ہی میں اسرائیل کی جانب ایک سو تین فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو فلسطینی مذاکرات کار اراکت نے بھی خوش آئند قرار دیا ہے۔ لیکن اسرائیلی میڈیا نے اس پر تنقید کی ہے۔