پشاور میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری میں تربیت یافتہ عملے کے فقدان کے باعث 15 مئی سے کورونا وائرس کے ٹیسٹ بند کردیے جائیں گے۔

خیبرمیڈیکل یونیورسٹی لیب کے 5 ملازمین کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد ٹیسٹ کا سلسلہ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

کے ایم یو کے انسٹی ٹیوٹ آف بیسک میڈیکل سائنسز نے وائس چانسلر کو لکھے گئے خط میں کہا کہ 'ہم 15 مئی کے بعد کام کرنا بند کردیں گے، 5 ملازمین میں کووڈ-19 مثبت آیا ہے جس سے دیگر ملازمین کے لیے خطرات میں اضافہ ہوا ہے'۔

مزید پڑھیں:خیبرپختونخوا میں جونیئر ڈاکٹر کورونا وائرس کنٹرول سینٹر کا سربراہ مقرر

ڈان کو پرووینشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر زبیر ظاہر نے مذکورہ خط کی نقل فراہم کی اور کہا کہ چیف سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز نے کووڈ-19 کے ٹیسٹ کے لیے مارکیٹ سے عملے کی بھرتی کے لیے مارچ میں ایک کروڑ روپے مختص کیے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کے ایم یو کی انتظامیہ نے انسٹی ٹیوٹ آف بیسک میڈیکل سائنسز کے اراکین کو لیبارٹری کے تجربے کے بغیر وہاں تعینات کردیا تھا اور اس وائرس کے پھیلنے کی وجہ یہی ہے۔

ڈاکٹر زبیر ظاہر نے کہا کہ فزیالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عنایت خان جمعے کو کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے جبکہ بعد میں ان کے والد اور والدہ کا ٹیسٹ بھی مثبت آگیا۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم کووڈ-19 ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے عملے کی تعیناتی کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اراکین متعلقہ شعبوں میں تحقیق کریں'۔

ان کا کہنا تھا کہ حیرانی کی بات ہے کہ ایم یو غیر تربیت یافتہ عملے کے ساتھ ہائی ٹیک لیبارٹری کیسے چلاسکتی ہے جس کا بنیادی کام اناٹومی، فارماکالوجی اور فزیالوجی پڑھانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:رکن قومی اسمبلی منیر اورکزئی،وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی میں کورونا کی تصدیق

ڈاکٹر زبیر ظاہر نے کہا کہ 'ہمیں پی ایچ آر بی میں کام کرنے سے ڈر گئے تھے اور صوبے کے وسیع تر مفاد میں اسے 15 مئی سے بند کردیں گے اور اسی لیے ہم ٹیسٹ نہیں کرپائیں گے'۔

وائس چانسلر کو 'پی ایچ آر ایل میں ماہر اور تربیت یافتہ عملے کی تعیناتی' کے عنوان سے خط لکھا گیا ہے جس میں اراکین نے کہا ہے کہ انہیں وائس چانسلر نے مارچ میں لیبارٹری میں ہنگامی طور پر کام کرنے کی ہدایت کی تھی اور وائرس سے متعلق تجربہ نہ ہونے کے باوجود احکامات پر عمل کیا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ 'ہم اس وبا کے دوران کے ایم یو کی حکومت اور لوگوں کے ساتھ کام کی نوعیت سے واقف ہیں لیکن مؤثر خدمات کے لیے پی ایچ آر ایل کے ماہر عملے کی تعیناتی یا تربیت اور آئی بی ایم ایس کے فیکلٹی ممبران کو مذکورہ کام سے اجازت دینے پر وہ پڑھانے اور تحقیق پر توجہ دے پائیں گے'۔

وائس چانسلر کو توجہ دلائی گئی ہے کہ 'پی ایچ آر ایل خیبرپختونخوا حکومت کا ایک آزاد ادارہ ہے اور کے ایم یو میں اس کے قیام کے بعد ماہر عملے کو 2017 سے اب تک تعینات کردینا چاہیے تھا'۔

شعبے کے اراکین کا کہنا تھا کہ لیبارٹری آئی بی ایم ایس میں واقع ہے لیکن اس کی حیثیت آزاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے آئی بی ایم کے اسٹاف نے پی ایچ آر ایل کو فعال کرکے کووڈ-19 سے نمٹنے کے لیے پی سی آر ٹیسٹ شروع کردیے تھے۔

مزید پڑھیں:پاکستان میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیسے اور کہاں کروایا جاسکتا ہے؟

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ 'پی ایچ آر ایل میں شروع سے ہی ہروقت ٹیسٹ ہورہے ہیں اور رپورٹ دی جاتی ہے، اب جب حکومت نے لیبارٹری چلانے کے لیے ضروری فنڈ بھی مختص کردیئے ہے تو لیبارٹری کو مستقل بینادوں پر کام کی خاطر عملے کو بھی تعینات کردینا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ لیبارٹری مئی کے وسط تک کام کرے گی۔

وائس چانسلر کے ایم یو ڈاکٹر ارشد جاوید نے کہا کہ پی سی آر ٹیسٹ صرف بائیو سیفٹی اور انفیکشن کو روکنے کے اقدامات کے بعد شروع کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ 'کے ایم یو کے پاس بائیوسیفٹی پر ایک پی ایچ ڈی افسر ہے جنہوں نے تمام عملے کو حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے تربیت دی تھی'۔

حفاظتی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'لیبارٹری کے اندر کام کرنے والا تمام عملہ ذاتی تحفظ کا مناسب لباس پہنتا ہے'۔

وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ کے ایم یو کے اندر انفیکشن کنٹرول کے ماہرین کے لیے ایک ہوسٹل کا انتظام کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'موجودہ واقعے پر انفیکشن کا ذریعہ معلوم کرنے سے متعلق تفتیش ہورہی ہے جہاں ایک نائب قاصد ہفتہ وار شفٹ پر ڈیوٹی پر مامور ہیں اور وہ روزانہ اپنے گاؤں بھی جاتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں:'ڈاکٹرز و طبی عملے کے وائرس کا شکار ہونے سے نظام صحت متاثر ہوسکتا ہے'

ڈاکٹر ارشد جاوید نے کہا کہ 'ٹیسٹ مثبت آنے والے 5 میں سے 4 افراد سپورٹ اسٹاف ہیں، لیبارٹری میں تقریباً 60 افراد کام کرتے ہیں اور صرف ایک میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ وہ بھی ایک ہفتے سے چھٹیوں پر تھے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم اب انفیکشن کنٹرول کے اقدامات کو مزید مضبوط کررہے ہیں، غیر متعلقہ افراد کو کے ایم یو میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے'۔

وائس چانسلر نے کہا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیموں کی جانب سے گزشتہ 6 ہفتوں کے دوران کے ایم یو کے معیار اور انفیکشن کنٹرول سے متعلق دو مرتبہ انسپکشن کی گئی ہے اور بہتر کارکردگی پائی گئی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 10 مئی 2020 کوشائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں