نرسوں کا عالمی دن: کورونا کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر لڑنے والوں کو سلام

اپ ڈیٹ 13 مئ 2020
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 12 مئی کو نرسز کا عالمی دن منایا جاتا ہے—فوٹو: اناطولو
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 12 مئی کو نرسز کا عالمی دن منایا جاتا ہے—فوٹو: اناطولو

نرسز کے عالمی دن کے موقع پر اگرچہ پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا جشن نہیں منایا گیا اور نہ ہی عالمی دن کی مناسبت سے کوئی پروگرام منعقد کیا گیا۔

تاہم اس کے باوجود پاکستانی شہری اس وقت نرسز کے کام کو سراہتے دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ کورونا وائرس کی وبا کے خلاف جنگ میں وہ سب سے آگے ہیں۔

پاکستان میں کئی خواتین نرسز جن میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی، وہ قرنطینہ منتقل ہوئیں اور بعدازاں صحتیاب ہوتے ہی اپنے کام پر واپس آگئیں اور مریضوں کا خیال رکھنے میں مصروف ہوگئیں۔

ایسی بہادر نرسز میں پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی مین قائم سول ہسپتال کے نیورولوجی وارڈ میں خدمات سر انجام دینے والی 35 سالہ صابرہ پروین بھی ہیں جنہوں نے کورونا سے صحت یابی کے فوری بعد اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔

صابرہ پروین میں اپریل میں کورونا کی تشخیص ہوئی تھی اور وہ دوران علاج 2 ہفتوں کے لیے قرنطینہ بھی ہوگئی تھیں مگر صحت یاب ہونے کے 2 دن بعد ہی وہ حفاظتی لباس، فیس ماسک اور دستانے پہن کر اپنی ڈیوٹی ادا کرنے ہسپتال پہنچیں۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں کورونا سے 90 ہزار طبی رضاکار بھی متاثر

وہ ہاتھوں میں میڈیکل ہسٹری کا چارٹ تھامے، بلڈ پریشر مشین کو ایک بستر سے دوسرے بستر لے کر، مریضوں کی خیریت دریافت کرنے کے بعد اس چارٹ میں کچھ درج کرتی رہتی ہیں۔

ان کے اس مصروف شیڈول کو دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہو رہا کے وہ حال ہی میں کورونا وائرس سے صحت یاب ہوکر واپس ڈیوٹی پر آئیں ہیں۔

اپریل کے دوسرے ہفتے میں کورونا کی تشخیص کے بعد انہوں نے خود کو اپنے گھر میں قرنطینہ کرلیا تھا۔

صحت یابی کے بعد ڈیوٹی پر واپس آنے کے بعد ترک خبر رساں ادارے اناطولو سے بات کرتے ہوئے تین بچوں کی ماں صابرہ پروین کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک برا خواب تھا، مگر اب وہ سوچتی رہتی تھیں کہ اگر ان کا کورونا کا ٹیسٹ دوبارہ بھی مثبت آیا تو ان کے بچوں کا کیا ہوگا؟‘

قرنطینہ کے دوران انہوں نے اپنی بہن سے گزارش کی تھی کہ وہ ان کے بچوں کا خیال رکھیں کیوں کہ ان کے شوہر شہر میں موجود نہیں تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر میں 14 دنوں کے لیے بالکل اکیلی تھیں، ان کے بھائی ان کے لیے کھانا لاتے اور ان کے دروازے پر چھوڑ کر چلے جاتے، وہ اپنے بھائی کو دیکھ بھی نہیں پاتی تھیں‘۔

سخت احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہی چند دن میں ہی صابرہ پروین اس وائرس سے صحتیاب ہوگئیں اور انہوں نے واپس ڈیوٹی جوائن کرکے مریضوں کا خیال رکھنا شروع کردیا۔

ان کی طرح 34 سالہ میل نرس امیر اللہ بھی ہسپتال میں ڈیوٹی کے دوران کورونا وائرس کا شکار ہوگئے تھے جو صحتیاب ہونے کے فوری بعد گزشتہ ہفتے واپس ڈیوٹی پر آگئے۔

دو بچوں کے والد امیر اللہ اسپیشل وارڈ میں کورونا وائرس کے مریضوں کا خیال رکھ رہے تھے کہ 30 مارچ کو ان میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی اور انہوں نے خود کو ایک ماہ تک اپنے زیر تعمیر گھر میں قرنطینہ کرلیا تھا۔

امیر اللہ نے اناطولو کو بتایا کہ ’ان کی فیملی ان کے بھائی کے گھر منتقل ہوگئی تھی کیوں کہ ان کا گھر زیر تعمیر ہے، اور بعد ازاں وہی گھر ان کے لیے قرنطینہ سینٹر بن گیا۔

کورونا کے خلاف جنگ میں نرسز کو خطرہ

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) نے پہلے ہی سال 2020 کو نرسز اور مڈوائف کا سال قرار دے دیا ہے، کیوں کہ رواں برس جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ انگیل کی 200 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: حفاظتی اقدامات نہ ہونے سے ہزاروں دوا فروش خطرے سے دوچار

ہزاروں کی تعداد میں نرسز کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کے طور پر موجود ہیں اور عالمی سطح پر ہزاروں نرسز اس وبا کا شکار بن چکے ہیں۔

کورونا سے پاکستان میں بھی بہت بڑی تعداد میں نرسز اور دیگر طبی رضاکار متاثر ہوئے ہیں جب کہ 12 مئی کی سہ پہر تک پاکستان میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 32 ہزار 674 تک جا پہنچی تھی جب کہ اموات کی تعداد بھی بڑھ کر 724 تک جا پہنچی تھی۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 440 سے زائد طبی عملے کے کارکنان 12 مئی کی صبح تک اس وائرس سے متاثر ہوچکے تھے جن میں 70 نرسز بھی شامل ہیں اور متاثرین میں سے 8 اپنی جان کی بازی بھی ہار چکے تھے۔

طبی عملے میں وائرس کے بڑھتے کیسز کے بعد میڈیکل کمیونیٹی نے طبی حفاظتی سامان کی عدم دستیابی اور حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے پر احتجاج بھی کیے۔

حفاظتی لباس نہ ملنے اور لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صابرہ پروین کا کہنا تھا کہ ’شروعات میں وہ بہت خوفزدہ تھیں، صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے بچوں کی بھی انہیں فکر تھی لیکن ان کا حوصلہ اس وقت بڑھا جب ان کی طبیعت بہتر ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ لیکن اب وہ بالکل بھی خوفزدہ نہیں، کیوں کہ انہوں نے بدترین وقت گزار لیا، یہی وجہ ہے کہ اب وہ اپنی ڈیوٹی پر واپس موجود ہوں‘۔

ان کے برعکس امیر اللہ کا کہنا تھا کہ وہ اس تجربے کے بعد اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’وہ پہلے ہی بہت کچھ دیکھ چکے ہیں، اس لیے وہ جانتے تھے کہ اس وائرس سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے پرعزم ہوکر کہا کہ وہ دوبارہ وارڈ میں ماضی کی طرح پرجوش طریقے سے اپنے فرائض سر انجام دینے کے لیے تیار ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں 90 ہزار سے زائد نرسز و طبی رضاکار کورونا کا شکار بن چکے ہیں۔

نرسز اور طبی رضاکاروں کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل کونسل آف نرسز (آئی سی این) کے مطابق 6 مئی تک دنیا بھر میں 90 ہزار طبی رضاکار کورونا سے متاثر جب کہ 260 نرسز ہلاک ہوچکے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں