کووِڈ 19 کے مریض کی لاش نہ دینے پر مشتعل ہجوم کی جناح ہسپتال میں توڑ پھوڑ

اپ ڈیٹ 15 مئ 2020
توڑ پھوڑ کے نتیجے میں بکھرا ہوا سامان—تصویر: فیس بک
توڑ پھوڑ کے نتیجے میں بکھرا ہوا سامان—تصویر: فیس بک

کورونا وائرس سے متاثرہ ایک مریض کی ہلاکت کے بعد ایک درجن سے زائد افراد نے کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) کے آئیسولیشن وارڈ میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔

اشتعال انگیزی اس وقت ہوئی جب ہسپتال انتظامیہ نے مریض کے اہلِ خانہ کو لاش دینے سے انکار کردیا۔

مشتعل ہجوم، مریض کی میت وارڈ سے لے جانے میں کامیاب ہوگئے تھے تاہم موقع پر رینجرز اہلکاروں کے پہنچنے کے بعد اسے واپس وارڈ میں لانا پڑا۔

آئیسولیشن وارڈ میں کووِڈ 19 کے مریض زیر علاج تھے، ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ حملے کے بعد شیشوں کے ٹکڑے، فرنیچر اور پنکھے زمین پر پڑے ہیں جبکہ کاؤنٹر پر نصب شیشے کی کھڑی بھی توڑ دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ایس او پیز کی خلاف ورزی والے علاقوں میں لاک ڈاؤن سخت کرنے پر غور

ڈان سے بات کرتے ہوئے جے پی ایم سی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ ہسپتال میں پولیس اور رینجرز کو بلانے کے بعد کم از 8 سے 9 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

ہسپتال میں توڑ پھوڑ کے نتیجے میں کوئی شخص زخمی نہیں ہوا—تصویر: فیس بک
ہسپتال میں توڑ پھوڑ کے نتیجے میں کوئی شخص زخمی نہیں ہوا—تصویر: فیس بک

ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق ایک 60 سالہ شخص کو ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا کیمپس سے تشویشناک حالت میں جناح ہسپتال لایا گیا تھا انہیں سانس کی تکالیف، بخار اور کھانسی تھی اور ان کے تیمارداروں سے متعدد مرتبہ ان کی حالت کے بارے میں مشاورت کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ تیمارداروں کو بالائی منزل پر جانے نہیں دیا گیا جہاں مریض زیر علاج تھا لیکن ان کے انتقال کے بعد ہسپتال کے باہر ایک بڑا مجمع لگ گیا اور پھر انہوں نے وارڈ میں گھس کر توڑ پھوڑ کی۔

انہوں نے بتایا کہ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت 8 اسٹاف نرسز، متعدد ڈاکٹرز، 2 وارڈ بوائے، ایک میزبان، 2 صفائی کرنے والے، چوکیدار اور سیکیورٹی کا عملہ موجود تھا۔

مزید پڑھیں: بچوں میں کووڈ 19 سے ایک سنگین بیماری کا خطرہ بڑھنے کا انکشاف

ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا کہ ’واقعے میں کوئی فرد زخمی نہیں ہوا لیکن ہجوم نے دروازے، کھڑکیاں، چھت کے پنکھے، میزیں، کمپیوٹرز اور جو کچھ ان کے ہاتھ لگا توڑ دیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ جب کووِڈ 19 کا کوئی مریض انتقال کرجاتا ہے تو ہسپتال انتظامیہ صحت کے ضلعی افسر کو بلاتی ہے جو ایدھی کے عملے کے ذریعے میت کے غسل اور تدفین کا انتظام کرتے ہیں اور دور دراز قبرستان میں میت کو دفنایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا کہ ’میں تجویز دوں گی کہ ہمیں مرنے والے کے اہلِ خانہ کو اسے دیکھنے کی اجازت نہ دینے کی پالیسی پر دوبارہ سوچنا چاہیے، وہ کسی کے پیارے ہیں، اہلِ خانہ کو مکمل حفاظتی لباس مہیا کر کے میت کا غسل اور تدفین کرنے دی جائے‘۔

اس صورتحال کو ہر ایک کے لیے جذباتی طور پر چیلنجنگ کہتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں عوام سے درخواست کروں گی کہ اس طرح ہسپتالوں میں توڑ پھوڑ نہ کریں کیوں کہ ڈاکٹرز آپ کے لیے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر خزانہ بلوچستان ظہور بلیدی کورونا وائرس کا شکار

اس سلسلے میں صدر تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ارشد آفریدی نے بتایا کہ وقوعہ کے بعد 8 افراد کو حراست میں لیا تھا تاہم پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا اور اس سلسلے میں ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔

دوسری جانب ڈاکٹر سیمی جمالی سے جب ایف آئی آر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ پولیس چاہتی ہے کہ ہسپتال انتظامیہ شکایت درج کروائے، ’میں شکایت کیوں درج کرواؤں جب کہ یہ ایک سرکاری ہسپتال ہے اور یہاں سیکیورٹی فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، اگر میں نے ایف آئی آر درج کروائی تو کل کو یہ افراد انتقام کے لیے مجھ پر حملہ کریں گے تو کون ذمہ دار ہوگا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں