وفاقی کابینہ نے کورونا وائرس سے حفاظت کے لیے مقامی طور پر تیار کیے جانے والے ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای)، سینی ٹائزرز وغیرہ کی برآمد کی منظوری دے دی۔

اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کابینہ کو ملک میں کورونا کی صورتحال اور وائرس کے پھیلاﺅ پر قابو پانے کے لیے حکمت عملی پر تفصیلی طور پر بریف کیا گیا۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ کا ایک ماہ کی تنخواہ کورونا ریلیف فنڈ میں دینے کا اعلان

سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق اجلاس میں پبلک ٹرانسپورٹ، مارکیٹوں، صنعتوں میں کورونا کے حوالے سے مرتب کیے جانے والے ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد پر زور دیا گیا اور کورونا ٹیسٹ، ٹریکنگ اور متاثرہ افراد کو قرنطینہ میں منتقل کرنے کے حوالے سے ترتیب دی جانے والی ٹی ٹی کیو حکمت عملی (ٹیسٹنگ، ٹریکنگ، کورنٹین) کو سراہا گیا۔

کابینہ کے اجلاس میں متعلقہ حکام نے بتایا کہ ملک میں کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ لیبارٹریوں کی تعداد کو 2 سے بڑھا کر 100 تک پہنچا دیا گیا ہے جبکہ یومیہ کی بنیاد پر 32 ہزار ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں ابتدائی دنوں میں یہ صلاحیت محض 400 تھی۔

شوگر انکوائری رپورٹ: بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ

وفاقی کابینہ کو شوگر انکوائری رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں مستقبل کے لائحہ عمل اور متعلقہ اداروں کی جانب سے مزید کارروائی پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

وزیراعظم عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے شوگر انکوائری کا مقصد ان وجوہات اور حقائق کو سامنے لانا تھا جن کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور عوام پر غیر ضروری بوجھ ڈالا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور

انہوں نے کہا کہ انکوائری کے نتیجے میں سامنے آنے والے تمام حقائق کی روشنی میں نظام میں موجود خامیوں کی درستگی اور اصلاح کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ انکوائری رپورٹ کی روشنی میں بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو مختلف پہلوﺅں سے رپورٹ کا جائزہ لے گی اور موجودہ نظام بشمول ریگولیٹرز کے موثر کردار کے حوالے سے جامع اصلاحات کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ان اقدامات کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ مستقبل میں عوام کو استحصال اور غیر ضروری قیمتوں میں اضافے کے بوجھ سے محفوظ رکھا جا سکے۔

یاد رہے کہ چینی کے بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی سربراہی میں تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔

رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔

گندم کی طلب و رسد میں توازن کیلئے کمیٹی تشکیل

وفاقی کابینہ کو صوبوں کی جانب سے گندم کی خریداری کے حوالے سے اب تک کی پیش رفت اور مستقبل میں طلب و رسد کے تخمینوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک کے کسی حصے میں گندم اور آٹے کی قلت پیدا نہ ہو اور طلب و رسد میں توازن رکھنے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو اس حوالے سے سفارشات مرتب کرے گی، اس کے ساتھ کمیٹی فلور ملز سے متعلقہ معاملات میں اصلاحات کے حوالے سے سفارشات تجویز کرے گی۔

مزید پڑھیں: گندم کی خریداری میں کمی آٹے کے بحران کی وجہ بنی، رپورٹ

وزیرِ اعظم عمران خان نے نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے قائم ٹاسک فورس کی سفارشات جلد از جلد پیش کی جائیں تاکہ اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے مزید کارروائی کی جا سکے۔

واضح رہے کہ ملک میں آٹے کے بحران اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی قیمتوں کی انکوائری کرنے والی کمیٹی نے کہا تھا کہ خریداری کی خراب صورتحال کے نتیجے میں دسمبر اور جنوری میں بحران شدت اختیار کرگیا۔

کمیٹی نے کہا تھا کہ سرکاری خریداری کے طے شدہ ہدف کے مقابلے میں 35 فیصد (25 لاکھ ٹن) کمی دیکھنے میں آئی۔

علاوہ ازیں وزیرِ اعظم عمران نے کراچی میں پی آئی اے مسافر طیارے میں شہید ہونے والے افراد کے خاندانوں کے ساتھ دلی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسانی جان کا نقصان ناقابل تلافی ہے، ہم مشکل کی اس گھڑی میں غم زدہ خاندانوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ٹڈی دل کے خاتمے کے غیر معمولی حل پر غور

کابینہ کو ملک میں ٹڈی دل کی صورتحال، روک تھام کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور قلیل و طویل المدتی حکمت عملی پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

کابینہ نے ٹڈی دل کی روک تھام کے حوالے سے حکومت چین، ڈی ایف آئی ڈی، ایف اے او، این ڈی ایم اے اور پاک آرمی کی کارکردگی کو سراہا۔

وزیرِ اعظم عمران نے کہا کہ کہ ٹڈی دل کے حوالے سے تمام مطلوبہ وسائل فراہم کیے جائیں گے اور ٹڈی دل کے خاتمے کے غیر معمولی حل پر غور کیا جائے۔

منظوریاں

کابینہ نے محترمہ لبنیٰ فاروق ملک کو ڈائریکٹر جنرل فنانشل مانیٹرنگ یونٹ تعینات کرنے کی منظوری دی۔

کابینہ نے یوٹیلیٹی اسٹورز کے حوالے سے ایسینشل سروسز ایکٹ 1952کے نفاذ کی منظوری دی۔

کابینہ نے شکیل احمد منگنیجو کو دسمبر 2020 تک چیئرمین پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن تعینات کرنے کی منظوری دی۔

کابینہ نے مسعود بنی کو منیجنگ ڈائریکٹر گورنمنٹ ہولڈنگز (پرائیویٹ) لمیٹیڈ تعینات کرنے کی منظوری دی۔

مزید پڑھیں: چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ

کابینہ نے وسیم مختار(ایڈیشنل سیکرٹری پاور ڈویژن) کو چیف ایگزیکیٹو آفیسر سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (گارنٹی) لمیٹڈ کا اضافی چارج دینے کی منظوری دیتے ہوئے وزارت توانائی کو ہدایت کی کہ اس اسامی کو مستقل طور پر پُر کرنے کا عمل آئندہ 3 ماہ میں مکمل کیا جائے۔

علاوہ ازیں کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 20 اور 21مئی کے اجلاسوں میں لیے گئے فیصلوں کی توثیق کی، ان فیصلوں میں خصوصی اقتصادی زونز کے حوالے سے مراعاتی پیکیج، ملک میں اسمارٹ فون بنانے کے حوالے سے پالیسی، وزیرِ اعظم کووڈ 19 ریلیف فنڈ، ایل پی جی پر پٹرولیم لیوی، 200ارب مالیت کے سکوک بانڈز کا اجراجیسے اہم شعبہ جات کے حوالے سے فیصلے کیے گئے۔

معاشی اعشاریوں پر بریفنگ

کابینہ کو بتایا گیا کہ کورونا کی وجہ سے اپریل کے مہینے میں ملکی برآمدات 54 فیصد کم ہوئیں لیکن مئی کے مہینے میں اس میں 34 فیصد اضافہ دیکھنے میں آئی جبکہ ترسیلات زر کی مد میں مالی سال 20-2019 میں 18.8ارب ڈالر موصول ہوئے اور اپریل کے آخرتک فارن ایکسچینج ریزور 18.7ارب ڈالر رہے۔

علاوہ ازیں حکام نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3.3 ارب ڈالر رہا جو کہ جی ڈی پی کا 1.5فیصد ہے، گزشتہ برس (18-2017) میں یہ خسارہ 11.4 ارب ڈالر تھا جو کہ جی ڈی پی کا 4.7 فیصد بنتا ہے۔

مزید پڑھیں: معاشی پیکج: پیٹرولیم مصنوعات اگلے 3 ماہ میں مزید سستی ہوں گی، مشیر خزانہ

کابینہ کو بتایا گیا کہ مالی سال 20-2019 میں برآمدات 16.4ارب ڈالرجبکہ درآمدات 19.7ارب رہیں، سروس ٹریڈ بیلنس 2.6ارب رہا اور افراط زر جنوری میں 14.5 تھا جبکہ یہ شرح اپریل میں 8.5 فیصد پر آچکی ہے۔

ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے بتایا گیا کہ مالی سال 20-2019 میں 1.864ارب ڈالر کی مجموعی سرمایہ کاری ہوئی جبکہ مالی سال 19-2018 میں یہ محض 403ملین ڈالر رہی اور پالیسی ریٹ 13.25سے کم ہو کر 8فیصد تک آچکا ہے۔

کابینہ کو بتایا گیا کہ گزشتہ پونے دو برس میں حکومتی کوششوں کی نتیجے میں آنے والے معاشی بہتری اور معیشت میں استحکام کا سفر شدید متاثر ہوا ہے، تاہم اس کے باوجود حکومت نے عوام الناس اور خصوصاً غریب عوام اور کاروباری شعبے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ایک بڑا ریلیف پیکیج فراہم کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں