جسٹس عیسیٰ کیس: 'ریفرنس ٹھیک نہیں بنا تو ہوسکتا ہے حکومت کا احتساب ہو'

اپ ڈیٹ 15 جون 2020
10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں  کیس کی سماعت کی— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر معاملہ زیر سماعت ہے اور آج (15جون) کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے یہ ریمارکس دیے کہ ججز قابل احتساب ہیں تو حکومت بھی قابل احتساب ہے، عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ریفرنس ٹھیک نہیں بنا تو ہوسکتا ہے حکومت کا احتساب ہو۔

عدالت عظمیٰ میں 10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے تحریری جواب عدالت میں پیش کر دیا، عدالت نے وکیل منیر اے ملک کو جواب جمع کرنے کی اجازت دی۔

مزید پڑھیں: فائز عیسیٰ کیس: 'کسی نے نہیں کہا جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، قانون کے مطابق ایسا ہوسکتا ہے'

عدالت میں سماعت کے دوران فروغ نسیم نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 63 کے تحت جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والا رکن اسمبلی اپنی رکنیت سے محروم ہوجاتا ہے، جج بھی سروس آف پاکستان میں آتا ہے، جج کے مس کنڈکٹ کو کسی قانون کی خلاف ورزی تک محدود نہیں کرسکتے، معزز جج اور اہلیہ دونوں نے لندن کی جائیدادیں ظاہر نہیں کیں۔

فروغ نسیم نے کہا کہ برطانیہ میں اہلیہ کی جانب سے بار کو خط لکھنے پر جج کے خلاف کارروائی ہوئی، پاکستان کا آئین غیر جانبدار ہے، آرٹیکل 209 میں اہلیہ کو زیر کفالت یا خود کفیل رکھنا بلا جواز ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کسی کا اپنے یا اہلیہ کے نام جائیداد ظاہر نہ کرنا قابل سزا جرم ہے، آرٹیکل 63 کےتحت جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والا رکن اسمبلی اپنی رکنیت سےمحروم ہوجاتا ہے،جج بھی سروس آف پاکستان میں آتا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ الزام یہ ہے کہ لندن کی جائیدادیں کیسے خریدی گئیں۔

' تمام ججز سے ٹیکس کیا جوڈیشل کونسل پوچھے گی؟'

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 10 اے پر بھی مطمئن کریں، صدارتی ریفرنس میں تشویش جائیداد خریدنے کے ذرائع ہیں۔

انہوں نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارے ملک میں 1990 کے بعد ایسا طریقہ کار بنایا گیا جس کے تحت کوئی حساب نہیں ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ سروس آف پاکستان کے ملازم کے بچے رولز رائس گاڑی چلائیں، اگر 1969 کا قانون اتنا برا تھا تو 18ویں ترمیم میں پارلیمنٹ ختم کر دیتی۔

دوران سماعت بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اگر تسلیم کرلیں تو پھر تمام ججز سے ٹیکس کیا جوڈیشل کونسل پوچھے گی؟

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل جج کے ٹیکس گوشواروں کا جائزہ لے سکتی ہے جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کہہ دے کہ اہلیہ نے جائیدادیں اپنے وسائل سے حاصل کی ہیں تو پھر صورتحال کیا ہوگی۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مقدمہ ٹیکس قانون کے آرٹیکل 116 کی خلاف ورزی کا ہے، آپ تو ٹیکس قانون کے ماسٹر ہیں۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ہمارا مرکزی مقدمہ ہے کہ کن وسائل سے یہ جائیدادیں خریدی گئیں،آرٹیکل 116 کی خلاف ورزی ایک چھوٹا سا نکتہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کیلئے 10 رکنی فل کورٹ تشکیل

فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا، الیکشن کمیشن کے پاس آنے والے مواد پر از خود کارروائی کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن نقائص پر مبنی درخواست پر کاروائی کر سکتا ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کونسل کے سامنے جج کے خلاف آمدن سے زائد ذرائع کا مواد کیا۔

فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے 09-2008 میں بطور وکیل اپنی آمدن ظاہر کی جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ کسی فورم پر یہ ثابت کریں کہ اہلیہ کو جائیداد خریدنے کیلئے جج نے پیسے دیے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں 15 سال کا ہمارا عزت و احترام کا رشتہ ہے جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ احترام کا رشتہ برقرار رہے گا سب چاہتے ہیں کیس کا جلد فیصلہ ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ایف بی آر اہلیہ سے ذرائع پوچھ لے جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر پوچھے اور اہلیہ جواب دے دیں تو کیس ختم ہو جائے گا۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پھر اس بات پر اصرار کیوں کررہے ہیں کہ جواب قاضی فائز عیسیٰ ہی دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے میں 9 ماہ گزر چکے ہیں۔

'اہلیہ کو اپنے والدین سے کچھ ملے تو کیا وہ بتانا بھی خاوند کی ذمہ داری ہے'

سماعت میں وقفے کے بعد فروغ نسیم نے کہا کہ وضاحت دینی ہے کہ جائیدادیں کیسے خریدی گئیں لیکن آج کے دن تک اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے کہ اہلیہ زیر کفالت ہوں، اہلیہ کو اپنے والدین سے کچھ ملے کیا وہ بتانا بھی خاوند کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ کسی عمارت کی بنیاد غلط ہو تو غلط ڈھانچے پر عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی۔

مزید پڑھیں: 'ذہن میں رکھیں ایک جمہوری حکومت کو ججز کی جاسوسی پر ختم کیا جاچکا ہے'

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زائد ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو اس کا تعین کس فورم پر ہوگا۔

فروغ نسیم نے کہا کہ سروس آف پاکستان کے تحت یہ جواب خاوند دے گا۔

سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مقدمہ جائیدادوں کی ملیکت سے متعلق ہے، کسی کے رہنے سہنے کے انداز کا مقدمہ آپ کا نہیں ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس میں منی لانڈرنگ اور فارن ایکسچینج کی منتقلی کی بات کی گئی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس کے الزامات کا جائزہ جوڈیشل کونسل لے گی۔

علاوہ ازیں جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ایسا کونسا ریکارڈ ہے جس سے اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ لگتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک جج پر سوال اٹھے تو پورے ادارے پر سوال اٹھتے ہیں۔

فروغ نسیم نے کہا کہ بھارت میں 6 لاکھ کی وضاحت نہ کرنے پر جج کو گھر بھیج دیا گیا، اسی مقدمے کی بنیاد پر بھارت میں عدالتی تاریخ رقم ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں جج کے خلاف فوجداری کارروائی کو الگ رکھا گیا اس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ بھارت میں جج کے خلاف کارروائی کے وقت مکمل مواد پیش کیا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ کے فروغ نسیم سے سوالات

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا جج صاحب ایف بی آر سے اپنی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ لے سکتے ہیں؟ اگر ایف بی آر رازداری کی وجہ سے جج کو اہلیہ کا ریکارڈ نہیں دے گا تو انضباطی کارروائی کا سامنا کیسے کرے گا؟ اگر ایف بی آر خاوند کو اہلیہ کے گوشوارے یا ٹیکس معلومات دینے سے انکار کر دے تو پھر راستہ کیا ہوگا؟

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میں اس سوال کا تفصیلی جواب دوں گا جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ابھی سوال کا جواب دے دیں۔

جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ مجھے متعلقہ قوانین کو دیکھنا ہوگا پھر جواب دینے کی پوزیشن میں ہوں گا جس پر جسٹس عمر عطابندیال نے فروغ نسیم کو سوال نوٹ کرنے کی ہدایت کی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت کونسل جج سے اہلیہ کی جائیداد کے بارے میں پوچھ سکتی ہے اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ سب سوالوں کے جواب دوں گا۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس:فروغ نسیم سے تند و تیز سوالات،ریفرنس کی تجویز دینے والے کا نام بتانے پر زور

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا ایک جج کی نجی زندگی میں اہلیہ اور بچے کی زندگی بھی شامل ہے؟

انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ آپ کے سامنے انکم ٹیکس اور جوڈیشل کونسل کے متعین قوانین موجود ہیں اور آپ ہمیں مختلف قوانین پڑھا رہے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ انکم ٹیکس اور جوڈیشل کونسل کے متعین کردہ قوانین کے تحت دلائل دیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں بیرون ملک جائیداد رکھنا مناسب نہیں، آج آپ نے بڑی اہم بات کی کہ جج کی اہلیہ کو پبلک آفس ہولڈر خاوند کی وجہ سے مراعات ملی ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ذہن میں رکھیں کہ مسئلے کا حل کیا ہے، آرٹیکل 116خاوند اہلیہ کے اثاثے بتانے کا پابند نہیں، شو کاز نوٹس بڑا اہم ہے آپ اس پر انحصار کر رہے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ججز قابل احتساب ہیں تو حکومت بھی قابل احتساب ہے، عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ریفرنس ٹھیک نہیں بنا تو ہوسکتا ہے حکومت کا احتساب ہو۔

فروغ نسیم نے کہا کہ بالکل وزیر قانون، وزیر اعظم ، صدر مملکت سب قابل احتساب ہیں، جائیدادیں جج کی اہلیہ کی ہیں، لگتا ہے کٹہرے میں حکومت کھڑی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بڑا مقدس ہوتا ہے، مسلمانوں کے جج پر عوام کا اعتماد بڑا مقدس ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں ہمارے جج کا کوڈ آف کنڈکٹ بہت اعلیٰ ہے، جج کے پاس جوڈیشل اختیار اللہ کی امانت ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں جج کی بڑی عزت و تکریم ہے، جج معاشرے میں بڑا بااختیار ہوتا ہے، اس کی بہت عزت ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ عوام کا سپریم کورٹ کے جج پر اندھا اعتماد ہوتا ہے اور عدلیہ پر عوام کا اعتماد مجروح نہیں ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی بہت اہم ہے۔

جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مقدمہ عدلیہ کی آزادی کا ہے اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ یہ عدلیہ کی آزادی کا مقدمہ بھی ہے۔

' قانون دکھادیں خود کفیل اہلیہ وسائل بتانے میں ناکام ہو تو بوجھ جج پر آئے گا'

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ بیگم صاحبہ ایف بی آر کو مطمئن نہ کر پائیں تو اثاثے چھپانے کا کیس اہلیہ پر بنے گا، جج صاحب پر سارا الزام کیسے آئے گا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون دکھا دیں کہ خود کفیل اہلیہ وسائل بتانے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر بوجھ جج پر آئے گا،انضباطی کارروائی کا قانون بدل نہیں سکتا۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جائیداد کی خریداری کی وضاحت نہ آنا بڑا اہم ہے جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سوشل میڈیا کا دور ہے جج پر جو مرضی کیچڑ اچھال دیں، آپ کہیں گے کہ جج کی ساکھ خراب ہو گئی۔

مزید پڑھیں: پی بی سی کا انور منصور، فروغ نسیم کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی پر زور دینے کا عندیہ

فروغ نسیم نے کہا کہ جھوٹی خبر شیئر ہوتی ہے، زیادہ دیر نہیں چل سکتی، یہاں پر جج کی اہلیہ اور بچوں کی لندن میں مہنگی جائیدادیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہوگا کہ جج صاحب اہلیہ کی جائیداد پر وضاحت نہیں دے رہے، اس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق اہلیہ اور بچوں سے پوچھ لیں جائیداد کیسے خریدی۔

جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جج صاحب نے جائیداد کی خریداری کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار نہیں کیا ۔

'فروغ نسیم دلائل مکمل کرنے میں کتنا وقت لیں گے؟'

دورانِ سماعت وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ حکومتی وکیل ٹائم لائین دے دیں کب تک دلائل مکمل کریں گے۔

دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ فروغ نسیم اپنے دلائل مکمل کرنے میں کتنا وقت لیں گے، یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ عدالت کونسل کے اختیارات سے آگاہ ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایک جج کو عمومی باتوں سےچیلنج نہیں کیا جاسکتا، آپ کا مؤقف ہے کہ اصل سوال جائیداد کی خریداری کے ذرائع کا ہے، آپ کے تمام الزامات میں کرپشن اور بد دیانتی کی بات نہیں۔

انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار سمیت ملک کی تمام بارز جج کے دفاع میں آئی ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بار کونسل کے مطا بق جج پر بدنیتی اور کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے، جج بھی قابل احتساب ہیں، جج شیشےکے گھر میں رہتے ہیں، جج صاحب کہتے ہیں کہ جائیدادوں سے متعلق اہلیہ سے پوچھا جائے۔

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مجھے دلائل دینے میں مزید 2 روز لگ سکتے ہیں جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لگتا نہیں کہ 2 دن میں آپ دلائل مکمل کرپائیں گے۔

بعدازاں عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کل ( 16 جون) تک ملتوی کردی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں بیان: انور منصور اور فروغ نسیم کے ایک دوسرے پر الزامات

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں