جسٹس عیسیٰ کیس: ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 16 جون 2020
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ  ویب سائٹ
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دائر درخواست پر معاملہ زیر سماعت ہے اور آج کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی، اس دوران حکومت کی جانب سے فروغ نسیم نے دلائل دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔

آج (منگل) کو سماعت کے آغاز پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فروغ نسیم آج کفالت پر دلائل دیں گے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میں آج پبلک ٹرسٹ اور ججز کی معاشرے میں حیثیت پر دلائل دوں گا۔

سرکاری ملازم اہلیہ سے معلومات لینے سے قاصر ہو تو کیا ہوگا، جسٹس منصور

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کہ آپ اپنے نکات پر دلائل دیں، ہم ججز کے احتساب سے متفق ہیں، درخواست گزار نے بدنیتی اور غیر قانونی طریقے سے شواہد اکٹھے کرنے کا الزام لگایا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس میں قانونی نقائص موجود ہیں، عمومی مقدمات میں ایسی غلطی پر کیس خارج ہو جاتا ہے،اگر ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے، ابھی تک ریفرنس میں کئی خامیاں موجود ہیں۔

بینچ کے سربراہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لندن کی جائیدادوں کی ملکیت تسلیم شدہ ہے، مقدمے میں سوال جائیداد کی خریداری کا ہے، درخواست گزار نے جائیدادوں کے وسائل خریداری بتانے سے بھی انکار نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: ’جائیدادوں‘ کی تفصیلات جاسوسی کے ذریعے حاصل کی گئیں، جسٹس عیسیٰ

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست گزار چاہتا ہے کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے، اس پر فروغ نسیم بولے کہ سروس آف پاکستان کے تحت کوئی اہلیہ کی پراپرٹیز کا جواب دینے سے انکار نہیں کر سکتا۔

اس بات پر بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر سرکاری ملازم اپنی اہلیہ سے معلومات لینے سے قاصر ہو تو پھر ایسی صورت میں کیا ہوگا، جس کے جواب میں فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازماگر اہلیہ کا بہانہ بنائے تو اسے جیل بھیج دیا جائے گا۔

خاوند ایف بی آر سے ریکارڈ نہیں لے سکتا تو پھر تو اسکے ہاتھ باندھ دیے گئے، جسٹس یحییٰ

دلائل دیتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ جج نے نہیں کہا کہ میری اہلیہ مجھے معلومات فراہم نہیں کر رہیں، اس پر بینج کے ایک اور رکن جسٹس یحییٰ آفریدی بولے کہ خاوند اگر ایف بی آر سے ریکارڈ نہیں لے سکتا تو پھر تو اس کے ہاتھ باندھ دیے گئے۔

جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ انکم ٹیکس کی مشینری کا استعمال کیا گیا لیکن جو قانونی طریقہ کار ہے اسے چلنے دیں۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ پبلک سرونٹ (سرکاری ملازم) سے اثاثوں کی تفصیل مانگی جائے تو وہ انکم ٹیکس کا عذر پیش نہیں کر سکتا اس لیے پبلک سرونٹ کے پوچھنے پر اہلیہ سے پوچھ کر انضباطی کارروائی کا جواب دینا ہوگا۔

جس پر عدالتی بینچ کے رکن جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ فروغ نسیم فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) میں کارروائی کے معاملے پر سوچ لیں اور وقفے کے بعد بتادیں کہ کیا کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'ذہن میں رکھیں ایک جمہوری حکومت کو ججز کی جاسوسی پر ختم کیا جاچکا ہے'

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ عدالت کی نظر میں یہ ایک بہتر راستہ ہوسکتا ہے کہ جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ضابطے کی کارروائی ہوتی ہے۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ضابطے کی کارروائی کا انحصار کسی دوسری کارروائی پر ہوگا، جب ضابطے کی کارروائی کسی دوسری کارروائی پر انحصار کرے گی تو آزادانہ کاروائی کیسے ہوگی؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس صورتحال میں ضابطے کی کارروائی کا بھی فائدہ نہیں ہوگا۔

جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار کسی فورم کی کارروائی پر نہیں ہے،ضابطے کی کارروائی میں نہیں کہہ سکتے کہ میری اہلیہ خودکفیل ہے۔

اس پر فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق قانون کی سہولت عام شہری کو دسیتاب ہے لیکن ججز کو قانون کے مطابق یہ سہولت میسر نہیں ہے آپ کا یہ اچھا نکتہ ہے جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ سروس آف پاکستان کے تحت اہلیہ خاوند سے الگ نہیں ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر نے آرٹیکل 116 اور 114 کے تحت نوٹس جاری کیے، معاملہ جوڈیشل کونسل کے پاس بھی چلا جائے۔

اپنے ریمارکس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ اگر بدنیتی نہیں ہے تو کونسل کاروائی کر سکتی ہے، آج بدنیتی اور شواہد اکٹھے کرنے پر دلائل دیں۔

کسی جج کے خلاف کونسل کے سوا کوئی ایکشن نہیں لے سکتا، جسٹس فیصل عرب

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں، یہ ہوسکتا ہے پہلے ایف بی آر کو معاملے پر فیصلہ کرنے دیا جائے وہاں پر فیصلہ اہلیہ کے خلاف آتا ہے تو پھر جوڈیشل کونسل میں چلا جائے۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ مجھے وزیراعظم اور صدر مملکت سے مشاورت کے لیے وقت دیں جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چلیں ابھی آپ اپنے دلائل دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ پہلے ایف بی آر کے معاملے پر وزیراعظم یا صدر سے ہدایات لے لیں جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر پر معاملہ چھوڑ دیا جائے تو ٹیکس اتھارٹی کو کتنا وقت دیا جائے گا۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چھٹیاں شروع ہوچکی ہیں، ایف بی آر کو کہہ دیں گے کہ چھٹیوں میں معاملے پر فیصلہ کردیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس:فروغ نسیم سے تند و تیز سوالات،ریفرنس کی تجویز دینے والے کا نام بتانے پر زور

اس بار پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کسی جج کے خلاف کونسل کے سوا کوئی ایکشن نہیں لے سکتا۔

ان کے بعد عدالتی بینچ کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر میں جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع بتائے جائے تو کونسل میں دوبارہ واپس آجائیں، قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیں۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ہمارے ریفرنس میں خامیاں نہیں ہیں جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ہدایات لے لیں اگر ہدایات منفی میں آتی ہیں تو دلائل دیں۔

ان کے بعد جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا جج اہلیہ کی جائیدادوں پر جواب دہ ہیں جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ یہ سوال نہیں آرٹیکل 209 بڑی سنجیدہ کارروائی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ ہم وحید ڈوگر کی شکایت اٹھا کر کونسل کو نہیں بھیج سکتے تھے، وزیراعظم اور صدر نے وحید ڈوگر کی معلومات کی تصدیق کرائی۔

صدر مملکت کے پاس بھی انکوائری کا اختیار نہیں، جسٹس فیصل عرب

اس بات پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اس کارروائی میں صدر کے خلاف بد نیتی کا الزام نہیں ہے، صدر مملکت کے پاس بھی انکوائری کا اختیار نہیں ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس میں کرپشن کا کوئی مواد نہیں، صدر مملکت کا اپنی رائے بنانا آئینی رائے ہے۔

اپنے ریمارکس میں جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس کا سارا کام ایک دن میں ہوا تھا، ان کے خلاف ایک دن مین ریفرنس بنا کونسل بھی بن گئی تھی، اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ہمارے پاس یہ معلومات آئی کہ جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع نہیں ہیں جس پر حکومت نے وہ معلومات جوڈیشل کونسل کو بھج دی۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: 'ریفرنس ٹھیک نہیں بنا تو ہوسکتا ہے حکومت کا احتساب ہو'

فروغ نسیم نے کہا کہ یہ درست نہیں ہے کہ صدر مملکت کے سامنے کوئی ریکارڈ نہیں تھا بلکہ ریفرنس کا جائزہ لے کر کونسل نے شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت شوکاز نوٹس کی پابند نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ اہلیہ سے پوچھے بغیر جج سے ذرائع پوچھ لیے گئے آپ قانون دکھا دیں کہ جج اہلیہ کے اثاثوں پر جواب دینے کے پابند ہیں۔

علاوہ ازیں جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیا صدر مملکت کا اختیار ہے کہ وہ جج کے کنڈکٹ کا جائزہ لیں۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ صدر مملکت آرٹیکل 209 کے تحت ایگزیکٹو کا کردار ادا کرتا ہے اور یہ ایسا مقدمہ ہے جس میں ہم نے آگے کے لیے سوچنا ہے، کل میں نہیں ہوں گا اور ججز بھی نہیں ہوں گے۔

صدر ایگزیکٹو کی توسیع ہے تو ریفرنس پر رائے کی کیاضرورت؟ جسٹس منصور

جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کی رائے کی اہمیت ہے، اگر صدر مملکت ایگزیکٹو کی توسیع ہے تو صدر کو ریفرنس پر رائے بنانے کی کیا ضرورت ہے۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ انکم ٹیکس کہہ دے کہ ذرائع درست ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے ٹیکس اتھارٹی کے فیصلے سے جوڈیشل کونسل اتفاق کرے نہ کرے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا تو یہ ہے کہ جائیداد کی خریداری حلال ہے یا دوسرے طریقے سے، ہمیں جوڈیشل کونسل پر مکمل اعتماد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'قانون دکھادیں کہ جج کو اپنی اور اہلخانہ کی جائیداد ظاہر کرنا ضروری ہے'

جس کے بعد اپنے دلائل میں فروغ نسیم نے کہ کہا کہ اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ حکومت نے نہیں مانگا جبکہ ایف بی آر سے ٹیکس کا ریکارڈ جوڈیشل کونسل نے منگوایا اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی بولے کہ فاضل وکیل صاحب ایسا نہ کریں، ایف بی آر کو پہلے خط حکومت کی جانب سے لکھا گیا تھا۔

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں اگر بطور رکن پارلیمنٹ اہلیہ کے کے اثاثوں کی تفصیل نہ بتاؤں تو نااہل ہوجاؤں گا۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ لمبی بات نہ کریں وقت تھوڑا ہے، آپ انکم ٹیکس قانون کا سیکشن 216 پڑھیں۔

جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا خاوند ایف بی آر سے براہ راست اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ مانگ سکتا ہے اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میرے خیال سے خاوند ریکارڈ مانگ سکتا ہے جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ خیال نہیں ہے آپ قانون سے بتائیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اہلیہ معلومات دینے سے انکار کرے تو ایسی صورت میں خاوند ٹیکس ریکارڈ کیسے حاصل کرے گا؟

صدر مملکت اپنا ذہن اپلائی کر سکتے ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اے آر یو یونٹ کیسے بنایا گیا کیونکہ وزیراعظم صرف وزارت بنا سکتے ہیں؟ ان کے بعد فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ اے آر یو یونٹ کیا ہے اور معلومات کیسے حاصل کی گئیں۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میں انتہائی احترام سے کہتا ہوں کہ آپ کے سوال سے متفق نہیں، اس سوال پر مجھے بھی سن لیں۔

جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کو سن رہا ہوں میں نہیں چاہتا آپ کے دل میں میرے لیے کچھ ہو اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اگر آپ کے سوال کو درست مان لیں تو آرٹیکل 48 کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر قانون فروغ نسیم ایک مرتبہ پھر اپنے عہدے سے مستعفی

فروغ نسیم کے جواب پر جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 48 ون کے تحت صدر مملکت کو ربر اسٹیمپ نہیں بنایا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت اپنا ذہن اپلائی کر سکتے ہیں اور ہم فیصلے میں یہ بات لکھیں گے۔

اپنے ریمارکس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے پاس وقت کی قلت ہے، جمعرات تک آ پ دلائل دیں جس کے بعد فروغ نسیم نے ریفرنس کے معاملے پر مشاورت کے لیے کل تک کا وقت مانگ لیا اور کہا کہ جو عدالت نے آپشن دیا اس پر کل جواب دوں گا۔

جائیداد جج کی ہے لیکن ٹرائل پر ہم ہیں، فروغ نسیم

سماعت میں وقفے کے بعد فروغ نسیم نے کہا کہ حکومت کے ہاتھ بالکل صاف ہیں، ایف بی آر کے معاملے پر فیصلے کی ضرورت نہیں ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ کسی سے اثاثے چھپانے پر وضاحت مانگی جاتی ہے، جوڈیشل کونسل کے سامنے کوئی پٹیشن نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پاناما اور خواجہ آصف کے مقدمات میں اثاثے چھپانے پر رٹ پٹیشن دائر ہوئی تھی۔

اس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے ک یہی سوال ہے کونسل کس قانون کے تحت جج سے اہلیہ کی جائیداد پوچھ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں بیان: انور منصور اور فروغ نسیم کے ایک دوسرے پر الزامات

جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ منفی مہم چاہے ہمارے خلاف ہو یا درخواست گزار کے خلاف وہ قابل مذمت ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ جائیداد جج کی ہے لیکن ٹرائل پر ہم ہیں، الزام ہم پر لگ رہا ہے میں بتا نہیں سکتا کس صورتحال سے گزر رہا ہوں۔

اس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ اس طرح اندازہ کریں جج کس عذاب سے گزر رہے ہوں گے، یہ بھی دیکھیں کیسے پریس کانفرنس ہوئی تھی۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ہمارا ملک کسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا، آپ کے جذبات کو ہم سمجھتے ہیں لہذا ان باتوں کو نظر انداز کریں۔

اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ کونسل کے پوچھنے پر جج کے جواب دینے سے عدلیہ کا اعتماد بڑھے گا، لیکن خود کفیل اہلیہ پر سرکاری ملازم جوابدہ نہیں اس لیے قانون میں تفریق پیدا کرنی پڑے گی۔

جج کی اہلیہ بتا دے کہ سلائی مشین کی آمدن سے دکان خریدی ہے،جسٹس عمر عطا

فروغ نسیم نے کہا کہ باقی سرکاری ملازمین تو اہلیہ کی جائیداد کی وضاحت دیں لیکن ایک سرکاری ملازم کہتا ہے میں اہلیہ کی جائیداد پر جواب نہیں دوں گا۔

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا کونسل جج کی اہلیہ کو بلا کر پوچھ سکتی ہے ؟ اور جج کی اہلیہ بتا دے کہ سلائی مشین کی آمدن سے دکان خریدی ہے۔

جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کونسل اہلیہ کو بلا کر پوچھ سکتی ہے، اہلیہ آکر بتا دیں پیسہ کہاں سے آیا اور پیسہ باہر کیسے گیا اس پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ فروغ نسیم کافی ہوگیا، میں تقاضا کروں گا ایسی مثالیں نہ دیں جو توہین آمیز ہوں۔

اس پر حکومتی وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ آرٹیکل 25 کے تحت کونسل کے پوچھنے پر جج کو اہلیہ کی جائیداد کا بتانا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: 'اٹارنی جنرل اپنے بیان سے متعلق مواد دیں یا تحریری معافی مانگیں'

فروغ نسیم کی دلیل پر جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیا یہ کہنا مناسب ہے اہلیہ اور بچے کی جائیدادیں جج کی تصور کی جائیں؟

ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق جج ایک ٹرسٹی ہے،ہم آپ کو بدنیتی، اور شواہد کے غیر قانونی طریقے سے جمع کرنے پر بھی سنیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو جاسوسی کے نکتے پر بھی سننا چاہیں گے، ایف بی آر کے معاملے پر آپ نے رضا مندی کا اظہار کیا تو منیر اے ملک کی رضا مندی بھی لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس دلائل کے لیے باقی 3 گھنٹے رہ گئے ہیں،جمعرات کو آپ کے ساتھی وکلا کو سنیں گے ۔

جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اگر کل تک دلائل ختم نہ ہوئے تو جمعرات کو بھی ایک گھنٹہ دے دیں اس پر جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ کل اگر ہمیں رات دیر تک بھی بیٹھنا پڑا تو آپ کو سنیں گے۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 17 جون بروز بدھ تک ملتوی کردی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کیلئے 10 رکنی فل کورٹ تشکیل

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں