پیٹرول بحران ختم ہونے کے بعد مزید 3 کمپنیوں کو ڈیڑھ کروڑ روپے کا جرمانہ

اپ ڈیٹ 29 جون 2020
کمپنیوں کو تیل بحران کے معاملے پر اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے گئے تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی
کمپنیوں کو تیل بحران کے معاملے پر اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے گئے تھے—فائل فوٹو: اے ایف پی

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے ملک میں تیل بحران ختم ہونے کے بعد تیل بحران پر 3 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر ڈیڑھ کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کردیا۔

جن کمپنیوں کو جرمانے کی سزا دی گئی ان میں بائیکو، آسکر اور بی ای انرجی شامل ہیں جن پر 50، 50 لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا۔

اوگرا کے مطابق جون کے اوائل میں کمپنیوں کو تیل بحران کے معاملے پر اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے گئے تھے اور کمپنیوں کی جانب سے جمع کروائے گئے جوابات تسلی بخش نہ ہونے پر جرمانہ عائد کیا ہے۔

قبل ازیں جون کے دوسرے ہفتے میں اوگرا نے 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر 4 کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا تھا، جن میں اٹک پیٹرولیم، پوما، گیس اینڈ آئل پاکستان، ہیسکول پیٹرولیم، شیل پاکستان اور ٹوٹل پارکو شامل تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: اوگرا نے پیٹرولیم بحران کا ذمہ دار 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ٹھہرادیا

واضح رہے کہ یکم جون کو حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد ملک میں پیٹرول کا بحران پیدا ہوگیا تھا جس پر حکومت اور اوگرا کے نوٹس کے باوجود قلت پر قابو نہ پایا جاسکا۔

تاہم 26 جون کو جوں ہی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 25 روپے 58 پیسے تک اضافہ کیا ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قلت ختم ہوگئی تھی۔

یاد رہے کہ حکومت نے کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے عرصے میں پیٹرولیم مصنوعات مجموعی طور پر 56 روپے 89 پیسے فی لیٹر تک سستی کی تھیں۔

25 مارچ سے یکم جون تک پیٹرول 37 روپے 7 پیسے فی لیٹر سستا کیا گیا، اسی عرصے میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 42 روپے 10 پیسے فی لیٹر کمی کی گئی جبکہ مٹی کا تیل 56 روپے 89 پیسے اور لائٹ ڈیزل 39 روپے 37 پیسے فی لیٹر سستا کیا گیا۔

31 مئی کو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں مزید 7 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد اس کی قیمت 74 روپے 52 پیسے فی لیٹر ہوگئی تھی۔

مزید پڑھیں: آئل کمپنیوں نے بیوروکریسی کو پیٹرول بحران کا ذمہ دار ٹھہرادیا

تاہم اگلے ہی روز یعنیٰ یکم جون سے ملک بھر میں پیٹرول کی شدید قلت پیدا ہوگئی تھی۔

اسی روز پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو ارسال کیے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ موگاز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کی جانب سے یکم جولائی 2020 سے پیٹرولیم مصنوعات میں ہونے والے ممکنہ اضافے کا مالی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ملک بھر میں ریٹیل آؤٹ لیٹس پر مصنوعات کی فراہمی میں کمی کی جاسکتی ہے۔

اس میں کہا گیا تھا کہ بحرانی صورتحال سے بچنے کے لیے ریگولیٹر ہونے کی حیثیت سے اوگرا کو او ایم سیز کو ملک میں ہر ریٹیل آؤٹ لیٹ پر اسٹاکس کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کرے۔

3 جون کو اوگرا نے پیٹرول کے تعطل پر 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جبکہ پیٹرول ذخیرہ کرنے کی شکایات پر ملک بھر میں آئل ڈپوز پر چھاپے بھی مارے گئے۔

تاہم پیٹرول کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی جاسکی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اوگرا نے پیٹرول کی فراہمی تعطل پر 6 آئل مارکیٹنگ کمپنیز کو شوکاز نوٹس جاری کردیا

ملک بھر میں پیٹرول کی مسلسل قلت کے باعث 8 جون کو حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمت اور مارکیٹنگ کو 'مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ' کرنے اور قیمتوں کے یکساں تعین کا طریقہ کار ختم کرنے کا اصولی فیصلہ سامنے آیا تھا۔

اس کے علاوہ ملک میں پیٹرول کی قلت اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث کمپنیوں کا پتا لگانے کے لیے وزارت توانائی کے پیٹرولیم ڈویژن نے 8 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔

11 جون کو اوگرا نے ملک بھر میں پیٹرولیم کے بحران کی ذمہ داری 6 بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سی) پر عائد کی اور ان پر 4 کروڑ روپے کا مجموعی جرمانہ عائد کردیا۔

دوسری جانب آئل کمپنیوں اور ریفائنریز نے بیوروکریسی کو ملک میں پیٹرول کی موجودہ قلت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ درآمد اور مقامی پیٹرول کی پیداوار میں اضافے سے متعلق فیصلہ نہ کرنے سے بحران کی صورتحال پیدا ہوئی۔

بعد ازاں 26 جون کو حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل سمیت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک 27 سے 66 فیصد یعنی 25 روپے 58 پیسے تک کا اضافہ کرنے کا اعلان کیا اور اس کا اطلاق بھی مہینے کے آغاز کے بجائے فوری طور پر کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں