لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب کا نجی اسکول کی طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات کا نوٹس

اپ ڈیٹ 01 جولائ 2020
عثمان بزدار کے مطابق واقعات کے ذمہ دار رعایت کے مستحق نہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز
عثمان بزدار کے مطابق واقعات کے ذمہ دار رعایت کے مستحق نہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے لاہور کے نجی اسکول میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او لاہور سے رپورٹ طلب کرلی۔

عثمان بزدار نے سی سی پی او لاہور کو ہراسانی کے واقعات کی غیر جانبدارانہ انکوائری کا حکم دے دیا۔

اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات ناقابل برداشت ہیں لہذا ذمہ دار عناصر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

عثمان بزدار نے کہا کہ معصوم بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات کے ذمہ دار عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

مزید پڑھیں: لاہور: نجی اسکولوں کی طالبات کے اساتذہ پر جنسی ہراسانی کے الزامات، وزارت انسانی حقوق کا نوٹس

انہوں نے مزید کہا کہ ہراساں کی جانے والی طالبات کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی نے نجی اسکول کی کئی طالبات کی جانب سے اساتذہ کے خلاف ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔

گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول، کینٹ کے پرنسپل غیاث صابر کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر اراکین میں ماڈل ٹاؤن ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسران شاہد علی شاہ اور سعدیہ نعیم شامل ہیں۔

کمیٹی کو لاہور گرامر اسکول غالب مارکیٹ برانچ کی متعدد طالبات کی جانب سے 4 اساتذہ پر جنسی ہراسانی کے الزمات سے متعلق 'حقائق تلاش کرنے' ، تحقیقات کرنے اور 3 روز کے اندر تجاویز کے ساتھ رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو ہراساں کرنے کے واقعات پر احتجاج

گزشتہ روز ہی پنجاب کے اسکول ایجوکیشن وزیر ڈاکٹر مراد راس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا تھا کہ 'میں لاہور گرامر اسکول 1 اے 1 کا کیس خود دیکھوں گا، میں نے پرنسپل سے بات کی ہے، تفصیلات حاصل کررہے ہیں میں ان کی (بچوں) کی حفاظت کروں گا'۔

 

ڈاکٹر مراد راس نے کہا تھا کہ اس کیس کو قانون کے تحت باقاعدہ نتیجے تک لایا جائے گا۔

مزید برآں مذکورہ اسکول کی برانچ نے اپنے سابق اور موجودہ طلبہ کے لیے ایک بیان جاری کیا تھا۔

اسکول برانچ کی ڈائریکٹر نگہت علی نے بیان میں کہا تھا کہ وہ ہراسانی کا کوئی سلسلہ جاری رہنے کی اجازت نہیں دیں گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہوگی جس کا حل نہ کیا جائے اور پہلا قدم اٹھایا جاچکا ہے کہ تمام 4 اساتذہ کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے۔

خیال ریے کہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر لاہور کے ایک بڑے تعلیمی ادارے کی طالبات کی جانب سے اساتذہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات سامنے آئے تھے۔

جس کے بعد اسکول انتظامیہ نے 4 مرد اساتذہ کو ہراسانی کے الزامات کے بعد ملازمت سے فارغ کردیا تھا لیکن اس خبر سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی عدم تحفظ کے حوالے سے والدین اور ماہر تعلیم میں تشویش موجود ہے۔

لاہور کے علاقے غالب مارکیٹ میں قائم لاہور گرامر اسکول (ایل جی اسی) 1 اے 1 برانچ نے 8 طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور انہیں نازیبا تصاویر بھیجنے کے الزام میں اساتذہ کو نوکری سے فارغ کیا گیا تھا۔

کچھ طالبات نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بات کی تھی جو منظر عام پر آنے کے بعد مزید طالبات آگے آئیں اور انہی اساتذہ کے حوالے سے اپنی آپ بیتی سے آگاہ کیا جبکہ دیگر اسکولوں کی طالبات نے بھی اس قسم کی شکایات کیں جس سے ظاہر ہوتا ہے اسکولوں میں ہراسانی کس طرح روز بروز بڑھ رہی ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو ہراساں کرنے کی شکایت، چیف جسٹس کا از خود نوٹس

جن اساتذہ پر الزامات لگائے گئے ان میں سے ایک کی نجی تصاویر کے اسکرین شاٹس بھی شیئر کیے گئے تھے اور وہ طلبہ کو اسکول مباحثہ اور سیاست پڑھاتے تھے۔

رپورٹس کے مطابق وہ تقریباً 4 سالوں سے نوجوان لڑکیوں کو اس قسم کی تصاویر اور تحریری پیغامات بھیج رہے اور اسکول کی تقریباً ہر شاخ کی طالبات کی جانب سے ان پر الزام لگایا گیا۔

بعدازاں گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ ’حال ہی میں لاہور کے دو اعلیٰ نجی تعلیمی اداروں میں لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے سنگین ہراسانی کے الزامات کا نوٹس لے لیا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت انسانی حقوق کی ہیلپ لائن 1099 مدد کے لیے دستیاب ہے اور ہم نے وزارت کے علاقائی دفاتر کو اس معاملے سے آگاہ کردیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں