کورونا وائرس کی علامات 6 مختلف گروپس میں تقسیم کی جاسکتی ہیں، تحقیق

18 جولائ 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — اے ایف پی فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — اے ایف پی فوٹو

ماہرین طب نے پہلی بار دریافت کیا ہے کہ نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی علامات 6 مختلف گروپس میں تقسیم کی جاسکتی ہیں، جس سے یہ پیشگوئی کرنے مدد مل سکے گی کہ کسی مریض کو وینٹی لیٹر یا سانس لینے کے لیے کسی سپورٹ کی ضرورت تو نہیں پڑے گی۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

تحقیقی ٹیم نے بتایا کہ اس دریافت سے طبی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کو کئی دن پہلے اندازہ لگانے میں مدد ملے گی کہ کن مریضوں کو ہسپتال کی نگہداشت اور نظام تنفس کی سپورٹ کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق اس وقت کووڈ 19 کے مریض اوسطاً 13 دن تک ہسپتال میں رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

کنگز کالج لندن سے تعلق رکھنے والے اور تحقیقی ٹیم میں شامل پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے بتایا کہ قبل از وقت کچھ کرنے سے لوگوں کو بچانے کے امکانات بڑھ جائیں گے جبکہ ہسپتالوں کو بھرنے سے روکنا بھی ممکن ہوگا۔

اس تحقیق کے نتائج آن لائن سائٹ medRxiv میں شائع ہوئے اور ابھی کسی طبی جریدے میں انہیں جاری نہیں کیا گیا۔

یہ نتائج تحقیقی ٹیم کی ایپ کے ڈیٹا پر مبنی تھے۔

محققین نے یہ ڈیٹا نے 1653 کووڈ 19 کے مریضوں سے جمع کرنا شروع کیا تھا جن کی جانب سے علامات کے ساتھ ساتھ صحت اور صورتحال کی اپ ڈیٹس تسلسل سے اپ ڈیٹ کی گئیں۔

مجموعی طور پر 383 افراد کو کم از کم ایک بار ہسپتال جانے کی ضرورت پڑی جبکہ 107 کو اضافی آکسیجن یا وینٹی لیشن فراہم کی گئی۔

ماہرین نے مشین لرننگ الگورتھمز کو استعمال کیا جن کے لیے اے آئی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی تھی، تاکہ کچھ علامات (ان کی تعداد 14 تھی) کے اجتماع کو دیکھا جاسکے۔

نتائج سے علامات کی اقسام پر مبنی 6 مختلف گروپس سامنے آئے جن میں علامات کے سامنے آنے کا وقت اور دورانیہ بھی شامل تھا۔

مگر نتائج میں اور بھی چیزیں سامنے آئیں جن کے بارے میں تحقیقی ٹیم کا کہنا تھا کہ ہم نے ان علامات کے اجتماع اور مریضوں کے نظام تنفس سپورٹ کے درمیان واضح تعلق کو بھی دریافت کیا۔

انہووں نے بتایا کہ دیگر عناصر جیسے بڑھاپا یا پہلے سے کسی بیماری کا شکار ہونا کچھ گروپس میں سب سے زیادہ عام تھے۔

ان گروپس کو درج ذیل 6 حصوں میں تقسیم کیا گیا:

پہلا گروپ ایسے افراد پر مشتمل تھا جن میں زیادہ تر بالائی نظام تنفس کی علامات یسے مسلسل کھانسی، پٹھوں میں درد کو دیکھا گیا، اس گروپ کے ڈیڑھ فیصد افراد کو نظام تنفس سپورٹ کی ضرورت پڑی، 16 فیصد کو ایک یا اس سے زیادہ بار ہسپتال جانا پڑا، یہ علامات کا سب سے عام گروپ تھا، جس کا سامنا 462 افراد کو ہوا۔

دوسرے گروپ میں بھی بالائی نظام تنفس کی علامات زیادہ نمایاں تھیں مگر ان میں کھانے کی رغبت ختم ہونا اور بخار کا تسلسل زیادہ تھا، جن میں سے 4.4 فیصد کو نظام تنفس کی سپورٹ فراہم کی گئی جبکہ 17.5 فیصد کو ایک یا اس سے زیادہ بار ہسپتال جانا پڑا۔

تیسرا گروپ ایسے مریضوں کا تھا جن میں پیٹ کے امراض پر مبنی علامات جیسے ہیضہ دیکھا گیا، مگر دیگر علامات بہت کم تھیں، اس گروپ کے صرف 3.7 فیصد افراد کو نظام تنفس کے سپورٹ فراہم کی گئی جبکہ لگ بھگ 24 فیصد کو ایک یا اس سے زائد بار ہسپتال لے جایا گیا۔

چوتھے گروپ کی ابتدائی علامات میں شدید تھکاوٹ، سینے میں مسلسل تکلیف اور کھانسی قابل ذکر تھیں، جس کے 8.6 فیصد مریضوں کو نظام تنفس کے سپورٹ کی ضرورت ہے جبکہ 23.6 فیصد کو ایک یا اس سے زائد بار ہسپتال جانا پڑا۔

5 واں گروپ ایسے افراد پر مشتمل تھا جو کھانے سے دور اور شدید تھکاوٹ کے شکار تھے، جس کے 9.9 فیصد مریضوں کو نظام تنفس کے سپورٹ کی ضرورت محسوس ہوئی جبکہ 24.5 فیصد کو ایک یا اس سے زائد بار ہسپتال لے جایا گیا۔

چھٹا گروپ زیادہ سنگین علامات جیسے سانس نہ لے پانا اور سینے میں درد کے ساتھ ساتھ ذہنی الجھن، تھکاوٹ اور معدے کے مسائل کے شکار افراد پر مشتمل تھا، جس کے لگ بھگ 20 فیصد مریضوں کو نظام تنفس کی سپورٹ اور 45.5 فیصد کو ایک یا اس سے زائد بار ہسپتال لے جایا گیا، مگر یہ سب سے کم عام علامات والا گروپ تھا جس کے مریضوں کی تعداد 167 تھی۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق اولین 2 گروپس کووڈ 19 کی معتدل اقسام والے تھے۔

اس سے ملتے جلتے گروپس محققین نے 1047 افراد کے ڈیٹا پر مشتمل ایک مختلف ایپ میں بھی دریافت کیے، جس کے نتائج کے بعد تحقیقی ٹیم نے سردرد اور سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی کو علامات کی فہرست میں شامل کرلیا، جو تمام گروپس میں نظر آنے والی علامات تھیں، مگر سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی کا دورانیہ معتدل کیسز میں زیادہ طویل تھا۔

محققین کا کہنا تھا کہ علامات کو مانیٹر کرنے سے کووڈ 19 کے مریض کی حالت کے حوالے سے پیشگوئی کرنا ممکن ہے۔

تحقیق کے مطابق علامات کی ابتدائی 5 دن کو دیگر عناصر جیسے عمر، جنس اور پہلے سے کسی بیماری کے شکار ہونے کو اکٹھے کرکے دیکھنے سے تحقیقی ٹیم 79 فیصد مریضوں کے حوالے سے بعد میں نظام تنفس کی سپورٹ کے بارے میں پیشگوئی کرنے میں کامیاب رہی۔

دیگر طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کے نتائج ایپ کے ڈیٹا پر مبنی تھے اور بڑے پیمانے پر اس کے نتائج کا اطلاق یا مرض کی شدت کی درست پیشگوئی کرنا ممکن نہیں، تاہم علامات کے ڈیٹا کو استعمال کرنا کسی حد تک مریضوں کو درپیش خطرات کا تعین کرنے میں مدد فراہم کرسکے گا۔

دیگر ماہرین کے مطابق نتائج سے اس نکتے پر روشنی ڈالنے میں مدد ملے گی کہ کن افرد کو ادویات جیسے ڈیکسا میتھاسون سے فائدہ ہوسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں