ایک عام دوا کورونا وائرس کو نزلہ زکام کی طرح قابل علاج بنانے میں مددگار قرار

19 جولائ 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

بلڈ کولیسٹرول کی سطح میں کمی لانے والی ایک عام دوا کورونا وائرس کو اسی طرح قابل علاج بناسکتی ہے جیسے عام نزلہ زکام۔

یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔

نیویارک کے ماؤنٹ سینائی میڈیکل سینٹر کی اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ اس وائرس کو اپنی بقا کے لیے کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پھیپھڑوں کی خلیات کے اندر جمع ہونے والی چکنائی یا چربی وہ اہم ترین جز ہے جس کی وائرس کو اپنی نقول بنانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔

وائرس کو اس سے دور رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے بہتر طریقے سے کنٹرول کرنا ممکن ہوسکے گا اور محققین کا دعویٰ تھا کہ اس سے کووڈ 19 کی شدت کسی عام نزلہ زکام جتنی کم کی جاسکتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس کس طرح ہمارے میٹابولزم کو کنٹرول کرتا ہے، جس کے بعد دوبارہ اس وائرس پر کنٹرول اور اسے اپنی بقا کے لیے درکار وسائل سے محروم کرسکتے ہہیں۔

تحقیق کے دوران مختلف ادویات کو استعمال کرکے دیکھا کہ وہ کس حد تک وائرس کو نقول بنانے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے دریافت کیا کہ کولیسٹرول کی سطح میں کمی لانے والی ایک دوا فینوفائبریٹ (fenofibrate) کے استعمال سے آنے والے نتائج حوصلہ افزا تھے جو پھیپھڑوں کے خلیات کو زیادہ چربی گھلانے میں مدد دیتی ہے اور کورونا وائرس کو پھلنے پھولنے کے لیے درکار ماحول کا خاتمہ کردیتی ہے۔

لیبارٹری میں تحقیق کے دوران محققین نے 5 دن میں اس دوا سے علاج کے دوران وائرس کو لگ بھگ مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

رواں ہفتے کیمبرج یونیورسٹی پریس کی جانب سے شائع ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ چین میں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں میں ہر 4 میں سے 3 مریض کم از کم پہلے سے کسی بیماری کا شکار تھے۔

ان میں سے 40 فیصد سے زیادہ افراد کو ہائی بلڈ پریشر جبکہ 25 فیصد سے زیادہ کو امراض قلب کا سامنا تھا اور یہ دونوں امراض ہائی کولیسٹرول سے جوڑے جاتے ہیں۔

اب امریکی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ کلینیکل ٹرائلز کے بعد کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے والی یہ دوا کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت ہوسکے گی۔

ویکسین کی تیاری میں ابھی کافی وقت لگ سکتا ہے اور اس بات کی ضمانت بھی نہیں تو اس وقت جن تھراپیز پر تحقیق کی جارہی ہے وہ مستقبل قریب میں وائرس سے لڑنے میں مددگار ثابت ہوسکیں گی۔

گزشتہ ماہ برطانوی حکومت نے ایک ورم کش دوا ڈیکسامیتھاسون کے استعمال کی منظوری ایک ٹرائل کے بعد دی گئی تھی۔

اس سے قبل رواں ہفتے ہی امریکا کے رینسیلیر پولی ٹیکنیک انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ خون پتلا کرنے والی ایک دوا ممکنہ طور پر نئے کورونا وائرس کا شکار ہونے سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ امریکا کے ادارے فوڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) سے منظور شدہ ایک عام دوا کووڈ 19 کے خلاف کے لیے طاقتور ٹول ثابت ہوسکتی ہے۔

کووڈ 19 کا باعث بننے والا یہ وائرس اپنی سطح کے اسپائیک پروٹین کو استعمال کرکے انسانی خلیات کو جکڑتا ہے اور پھر بیماری کا باعث بن جاتا ہے۔

مگر تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پیپارین (Heparin) نامی خون پتلا کرنے والی دوا اس اسپائیک پروتین کو سختی سے جکڑ لیتی ہے اور بیماری کا شکار ہونے کے عمل کو بلاک کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

جریدے اینٹی وائرل ریسرچ میں شائع تحقیق میں کہا گیا کہ اس دوا سے کووڈ 19 کا شکار ہونے کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے، یہ بالکل ان حکمت عملیوں سے ملتا جلتا ہے جو دیگر وائرسز بشمول زیکا اور ڈینگی کی روک تھام میں حوصلہ افزا ثابت ہورہی ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس طریقہ کار سے ابتدا میں مداخلت کرکے ایسے افراد میں بھی بیماری کو کم کیا جاسکتا ہے جن میں وائرس کی تشخیص ہوچکی ہے مگر علامات سامنے نہیں آئیں، مگر ہم اسے ایک بڑی اینٹی وائرل حکمت عملی کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یقیناً ہم ایک ویکسین چاہتے ہیں مگر یہاں ایسے متعدد ذرائع ہیں جن سے کسی وائرس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، جیسا ہم نے ایچ آئی وی میں ادویات کے درست امتزاج کے ساتھ دیکھا، ہم اس وقت تک بیماری کو کنٹرول کرسکتے ہیں جب تک ایک ویکسین تیار نہیں ہوجاتی۔

کسی خلیے کو متاثر کرنے کے لیے ایک وائرس پہلے خلیے کی سطح پر ایک مخصوص ہدف کو نشانہ بناتے ہیں، پھر خلیے کی جھلی سے گزر کر اپنی جینیاتی ہدایات کو داخل کرکے مشینری کو ہائی جیک کرکے اپنی نقول بنانے لگتے ہیں۔

مگر وائرس کو آسانی سے ایک ایسے مالیکیول کی جانب دھوکا دے کر لایا جاسکتا ہے جو اس کے لیے خلیاتی ہدف کی شکل اختیار کرتا ہے، اگر بار وہاں پھنسنے پر وائرس کو ناکارہ بنایا جاسکتا ہے اور وہ کسی خلیے کو متاثر یا خود کو آزاد نہیں کراپاتا، جبکہ بتدریج ناکارہ ہونے لگتا ہے۔

انسانوں میں نیا کورونا وائرس ایس 2 نامی ریسیپٹر کو جکڑتا ہے اور محققین کے مطابق پیپارین بھی اس وائرس کے لیے اتنا ہی پرکشش ہدف ثابت ہوتا ہے۔

محققین نے وائرس کے جکڑنے کے عمل کے تجزیے میں دریافت کیا کہ یہ دوا کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کو 73 پکو مولز (2 مالیکیولز کے درمیان رابطے کا پیمانہ) تک جکڑ لیتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بہت زیادہ سخت جکڑ ہوتی ہے، یہ کسی اینٹی باڈی اینٹی جن کے مقابلے میں لاکھوں گنا زیادہ سخت جکڑ ہوتی ہے، جب ایک بار وائرس جکڑا جاتا ہے تو پھر وہ نکل نہیں پاتا۔

تحقیق کے دوران ماہرین نے اس دوا کی 3 اقسام میں دیکھا تھا کہ وہ وائرس کو کتنی سختی سے پکڑتی ہیں اور پھر کمپیوٹینشنل ماڈل کو استعمال کرکے ان مخصوص حصوں کا تعین کیا جہاں یہ مالیکیول وائرس کو جکڑ سکتا ہے۔

تمام نتائج سے تصدیق ہوئی کہ یہ دوا وائرس کو دھوکا دینے والی کامیاب حکمت عملی میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ واحد وائرس نہیں جس کا سامنا ہم کسی وبا کے دوران کررہے ہیں، ہمارے پاس بہترین اینٹی وائرلز نہیں مگر آگے بڑھنے کا ایک راستہ موجود ہے، ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پیپارین جیسی چزیں اور متعلقہ مرکبات وائرس کو داخلے سے روک سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں