چیف جسٹس آف پاکستان نے صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا سے متعلق پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ پولیس کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تفتیش کرنا نہیں آتی۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ توہین عدالت ٹوئٹس پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کی، جہاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد عامر ذوالفقار پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے گزشتہ روز پیش کردہ رپورٹ کا معاملہ سامنے آیا جس پر عدالت نے آئی جی اسلام آباد کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ کیسی تفتیش کی ہے، کس نے کی ہے یہ تفتیش؟ آئی جی آپ کی ٹیم کو تفتیش کرنا ہی نہیں آتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صرف کرسی گرم نہیں کرتے، کام بھی کرنا ہوتا ہے، تفتیش میں تو ایک ایک منٹ قیمتی ہوتا ہے لیکن اسلام آباد پولیس بابوں کی طرح لیٹر بازی کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا مطیع اللہ جان کے اغوا کا نوٹس، پولیس سے رپورٹ طلب

سماعت کے موقع پر عدالتی برہمی کے دوران اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان بولے کہ پولیس کی رپورٹ میں نے بھی پڑھی ہے اور میں بھی اس سے مطمئن نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس رپورٹ کے بعد نادرا اور ایف آئی اے سمیت تمام اداروں کو ساتھ ملایا ہے۔

اس موقع پر صحافی مطیع اللہ جان کی جانب سے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت طلب کی گئی جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ جواب میں جتنی تاخیر آپ کریں گے اس کا نقصان آپ کو ہو سکتا ہے۔

جس پر مطیع اللہ جان نے کہا کہ عید کی چھٹیوں اور پولیس تفتیش کی وجہ سے جواب تیار نہیں کر سکا۔

بعد ازاں عدالت نے انہیں جواب کے لیے مزید 4 ہفتوں کی مہلت دے دی۔

تاہم سماعت کے دوران آئی جی پولیس پر برہمی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئی جی صاحب آپ کس زمانے میں بیٹھے ہوئے ہیں؟ لیٹر بازی کا کیا مقصد ہے؟ پولیس کی جانب سے معلومات کیوں اکٹھی نہیں کی گئیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقات کے دوران وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، 10 منٹ بھی نکل گئے تو ثبوت ضائع ہو جاتے ہیں، آپ کو تحقیقات کا پتا ہی نہیں ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے ڈی آئی جی آپریشنز پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جس ادارے سے معلومات لینی ہیں وہاں جا کر بیٹھ جائیں، آپ نے مزید لیٹر بازی نہیں کرنی، افسر کرسی گرم کرنے کے لیے نہیں ہوتے، افسران کو بھاگ دوڑ کرنا ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے خود کچھ سیکھا نہ سکھا سکتے ہیں، پولیس کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تفتیش کرنا نہیں آتی، آئی جی صاحب آپ پولیس کو جدید طریقوں سے تفتیش کرنا سکھانا ہی نہیں چاہتے، ہر کیس میں تفتیش کا یہی حال ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ججز پر 'تنقید' کا معاملہ: صحافی مطیع اللہ جان کو عدالت عظمیٰ کا نوٹس جاری

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس بولے کہ آئی جی صاحب آپ کی ذمہ داری ایک ایک لمحے کی ہوتی ہے لیکن پولیس نے ابھی تک کرائم سین (جائے وقوع) کا نقشہ ہی نہیں بنایا۔

بعد ازاں عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو 4 ہفتوں میں دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کو 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کردیا۔

مطیع اللہ کیس میں پولیس رپورٹ مذاق ہے، ناصر زیدی

علاوہ ازیں سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے کہا کہ میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسر شپ عائد ہے تاہم میڈیا کی آزادی کی جدوجہد کے لیے اہم لمحہ آن پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے صحافی اکھٹے ہیں اور معرکہ کن جنگ کے لیے تیار ہیں۔

پولیس کی رپورٹ پر بات کرتے ہوئے وہ بولے کہ مطیع اللہ کیس میں پولیس رپورٹ مذاق ہے، پولیس میں جرات نہیں کہ اداروں سے واقعات کی تفصیل لے سکے۔

ساتھ ہی ناصر زیدی نے بتایا کہ پی ایف یو جے نے مطیع اللہ جان کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے، یہ نوٹس ایک ٹوئٹ پر لیا گیا ہے اور اس کے فیصلے سے سوشل میڈیا کا مستقبل جڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، پی ایف یو جے کا مؤقف ہے کہ اس معاملے پر فیصلے سے پہلے آرٹیکل 19 پر ہمیں بھی سنا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے پر مطیع اللہ جان کے ساتھ کھڑے ہیں اور مطیع اللہ جان اغوا پر تحقیقاتی صحافیوں کی کمیٹی بنا دی ہے۔

ناصر زیدی کے مطابق پی ایف یو جے کی اظہار رائے کی آزادی، جمہوریت اور عدلیہ کی بحالی کے لیے طویل جدوجہد ہے اور یہ جدوجہد آگے بھی جاری رہے گی۔

پولیس رپورٹ میں کیا بتایا گیا؟

خیال رہے کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا سے متعلق وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے 5 اگست کو 52 صفحات پر مشتمل رپورٹ عدالت میں جمع کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں صحافی کے اغوا سے پردہ اٹھانے کے لیے مختلف محکموں سے طلب کی گئی معاونت پر جواب کا انتظار ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’اس واقعے میں ملوث مجرمان کا سراغ لگانے کی کوششیں جاری ہیں اس سلسلے میں مزید تحقیقات کے لیے مختلف محکموں سے رپورٹ کا انتظار ہے‘۔

اپنی رپورٹ میں اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس (انویسٹگیشن) کی سربراہی میں 5 رکنی خصوصی تفتیشی ٹیم صحافی کے اغوا کی تفتیش کررہی ہے اور اغوا کے فوراً بعد پولیس نے وزارت دفاع سے انٹیلی جنس بیورو، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹرسروسز اٹیلیجنس کے ذریعے ان کا پتا لگانے کی درخواست کی تھی تا کہ تحقیقات میرٹ پر کی جائیں گی۔

رپورٹ کے مطابق تفتیشی افسر نے وفاقی دارالحکومت کے تمام ہسپتالوں، ایدھی سینٹرز، ہیلتھ سیکریٹری، پریس کلب انچارج، پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور آزاد کمشیر کے آئی جیز پاکستان ریلویز، سیکریٹری فاٹا اور جیل خانہ جات کو خطوط ارسال کردیے تھے۔

خطوط میں درخواست کی گئی تھی کہ متعلقہ عملے سے اپنے ادارے کا ریکارڈ چیک کرنے کا کہا جائے اور اگر کوئی کام کی معلومات حاصل ہو تو مقامی پولیس کو اطلاع دی جائے تا کہ اس سلسلے میں قانون کے مطابق مزید کارروائی کی جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اغوا کاروں کا سراغ لگانے کے لیے سپرنٹنڈنٹ پولیس (انویسٹگیشنز) کو بھی جائے وقوع کی جیو فینسنگ کرنے کی تحریری ہدایات دی گئی تھیں۔

اس کے علاوہ آس پاس کے تمام اضلاع کے تھانوں کو بھی وائرلیس کے ذریعے پیغام دیا گیا تھا کہ کہیں صحافی ان کی حدود میں کسی کیس میں ملوث تو نہیں لیکن پولیس رپورٹ کے مطابق صحافی پر کوئی مقدمہ نہیں تھا نہ ہی انہیں مقامی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ متعقہ حلقوں کو صحافی کے موبائل فون کا سی ڈی آر حاصل کرنے کی بھی درخواست کی گئی تھی اس کے ساتھ جائے وقوع کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے لیے سیف سٹی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر کو درخواست بھیجی گئی جو اب تک زیر التوا ہے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ مبینہ ملزمان کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو ارسال کی گئی تا کہ ملزمان کی شناخت کی جاسکے اور اس پر بھی اب تک کام جاری ہے۔

پولیس نے یقین دہانی کروائی کہ اس جرم میں ملوث تمام ملزمان کا سراغ لگا کر گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل استعمال کیے جائں گے اور اس سلسلے میں کوئی غفلت نہیں برتی جائے گی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کے اراکین کو واقعے کے تفتیش سے متعلق پیش رفت سے روزانہ حکام کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ اور تحقیقاتی ٹیم کے اراکین اغوا ہونے والے صحافی اور دیگر محکموں کے ساتھ رابطے مین ہیں اور اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہر کوشش کی جائے گی۔

مطیع اللہ جان کا اغوا اور واپسی

واضح رہے کہ 21 جولائی کو سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے اغوا کیا گیا تھا۔

یہ اغوا دارالحکومت کے سیکٹر جی 6 میں ایک سرکاری اسکول کے باہر دن کی روشنی میں ہوا تھا۔

مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی گاڑی سیکٹر جی 6 میں اسکول کے باہر کھڑی تھی جس میں صحافی کا ایک موبائل فون بھی موجود تھا۔

مزید پڑھیں: مطیع اللہ جان کا اغوا: کس کی اتنی ہمت ہے کہ پولیس کی وردی میں یہ کام کیا، عدالت

علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر ایک صحافی نے مطیع اللہ جان کے اغوا کی مبینہ سی سی ٹی وی فوٹیج شیئر کی تھی تاہم پولیس نے اس کی تصدیق کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔

اس 'جبری گمشدگی' نے نہ صرف صحافی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو آواز اٹھانے پر مجبور کیا بلکہ اس نے سیاسی جماعتوں اور سفارتی حلقوں میں بھی تحفظات کو جنم دیا تھا۔

ایمنسی انٹرنیشنل، انسانی حقوق کمیشن، وفاقی وزرا، اپوزیشن جماعتوں اور سیاست دانوں کے علاوہ صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے مطیع اللہ جان کے 'اغوا' پر غم وغصے کا اظہار کیا اور فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مطیع اللہ جان کی رہائی اور بخیریت واپسی کے ٹرینڈز بھی نمایاں رہے تھے۔

بعد ازاں مطیع اللہ جان اسلام آباد سے اغوا ہونے کے تقریباً 12 گھنٹے کے بعد منگل ہی کو رات گئے گھر واپس پہنچ گئے تھے۔

صحافی اعزاز سید نے ٹوئٹ میں مطیع اللہ جان کے ہمراہ تصویر شیئر کی تھی اور کہا تھا کہ 'میرے دوست کو خوش آمدید کہنے پر خوش ہوں، انہیں 12 گھنٹے بعد رہا کیا گیا۔'

مزید برآں 22 جولائی کی صبح سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں مطیع اللہ جان نے کہا تھا کہ میں باحفاظت گھر پہنچ گیا ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں