عالمی بینک کا پاک، بھارت پانی کے تنازع پر ثالثی کرنے سے انکار

اپ ڈیٹ 08 اگست 2020
بھارت اور پاکستان دونوں کو مل جل کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ کون سا آپشن اپنانا ہے، سابق کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان کوہی مری:فائل فوٹو
بھارت اور پاکستان دونوں کو مل جل کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ کون سا آپشن اپنانا ہے، سابق کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان کوہی مری:فائل فوٹو

اسلام آباد: ورلڈ بینک نے پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے طویل تنازع کو حل کرنے کے لیے غیر جانبدار ماہر یا ثالثی عدالت کے تقرر سے متعلق آزادانہ فیصلہ کرنے سے عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو دو طرفہ طور پر ایک آپشن کا انتخاب کرنا پڑے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں اپنی پانچ سالہ میعاد پوری ہونے پر ورلڈ بینک کے سابق کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان پیٹچاموتھو ایلنگوان نے کہا 'بھارت اور پاکستان دونوں کو مل جل کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ کون سا آپشن اپنانا ہے'۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پیٹچاموتھو ایلنگوان نے کہا کہ پاکستان نے ثالثی عدالت (سی او اے) کی تقرری کے لیے درخواست دی تھی جب کہ بھارت نے دو پن بجلی منصوبوں پر ان کے تنازع کو حل کرنے کے لیے غیر جانبدار ماہر طلب کیا ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی، پاکستان کا بھارت کے خلاف مہم چلانے کا عندیہ

ان کا کہن تھا کہ 1960 میں ہونے والے انڈس واٹرس ٹریٹی کے تحت دو متضاد پوزیشنز کی وجہ سے عالمی بینک دونوں حکومتوں کو اختلافات کے حل اور آگے بڑھنے کے لیے راہیں تلاش کرنے میں مدد فراہم کررہا تھا۔

ان سے جب سوال کیا گیا کہ کیا بینک اپنے کردار سے پیچھے ہٹ رہا ہے جبکہ یہ 1960 کے معاہدے کے حصہ تھا تو انہوں نے کہا کہ 'معاہدے میں عالمی بینک کے آزادانہ فیصلہ لینے کا کوئی ذکر نہیں ہے'۔

ورلڈ بینک نے سندھ طاس پر ترقیاتی کاموں کا حصہ بننے کا وعدہ کیا تھا اور پھر بھی اس نے دیامر-باشا ڈیم کو فنڈ دینے سے انکار کردیا ہے، اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب بینک داسو 1 اور 2 کی طرح دریائے سندھ پر دوسرے منصوبوں کی حمایت کررہا ہے، بھارت نے ایک متنازع علاقے میں دیامر بھاشا کے مقام پر اعتراض اٹھایا تھا اور متنازع منصوبوں کی مالی اعانت کرنا عالمی بینک کی پالیسی نہیں ہے۔

پاکستان اس وقت سے ہی ورلڈ بینک کو یاد دلاتا آرہا ہے کہ وہ 1960 کے انڈس واٹرس ٹریٹی کے تحت اپنی ذمہ داری کو تسلیم کرے تاکہ دو متنازع منصوبوں یعنی 330 میگاواٹ کے کشن گنگا اور 850 میگاواٹ کے رتلے پن بجلی منصوبوں پر خدشات کو دور کیا جاسکے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے کہ بھارت اس معاہدے کی پاسداری کرے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی،معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ

بھارت نے 339 میگاواٹ کا کشن گنگا پروجیکٹ اس عرصے کے دوران مکمل کیا تھا جب ورلڈ بینک نے 2016 کے اوائل میں پاکستان کی درخواست کے تحت ثالثی عدالت (سی او اے) کے قیام کے عمل کو 'روک' دیا تھا، پاکستان کی درخواست کے رد عمل میں بھارت نے غیر جانبدار ماہر کا مطالبہ کیا تھا۔

پاکستان نے دریائے نیلم پر کشن گنگا منصوبے، چناب پر 850 میگاواٹ کے رتلے پن بجلی منصوبے پر اور تنازعات کو حل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

دسمبر 2016 میں بینک نے اعلان کیا تھا کہ اس نے سی او اے یا غیر جانبدار ماہر کے تقرر کے عمل کو 'روک' دیا ہے اور دونوں ممالک کے مابین ثالثی شروع کی ہے کہ معاہدے کی روشنی میں اتفاق رائے کیسے پیدا کیا جائے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان بینک کی سہولت کاری اور سئکریٹری سطح کے مذاکرات کا آخری دور ستمبر 2015 میں واشنگٹن میں ہوا تھا جو مؤخر الذکر مایوسی پر ختم ہوا تھا۔

پاکستان نے لگ بھگ ایک دہائی قبل مستقل انڈس واٹرس کمیشن کی سطح پر دونوں منصوبوں کے ڈیزائن پر متعدد اعتراضات اٹھائے تھے جس کے بعد سیکرٹری کی سطح پر بات چیت ہوئی اور پھر عالمی بینک کے توسط سے ثالثی کی درخواستیں کی گئیں۔

معاہدے کے تحت اگر فریقین دوطرفہ طریقوں سے تنازعات حل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو متاثرہ فریق کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ بین الاقوامی عدالت برائے ثالثی یا عالمی بینک کے زیر نگرانی غیر جانبدار ماہر کے دائرہ اختیار کی درخواست کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں