اراکین پنجاب اسمبلی تحفظ بنیاد اسلام بل کے حق میں ووٹ دینے پر نادم

08 اگست 2020
حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے دستاویز کو پڑھے بغیر ہی اس کو ووٹ دیا— فائل فوٹو: اے پی پی
حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے دستاویز کو پڑھے بغیر ہی اس کو ووٹ دیا— فائل فوٹو: اے پی پی

لاہور: پنجاب اسمبلی کے اراکین کی جانب سے محض دو ہفتے قبل متفقہ طور پر منظور کیے گئے تحفظ اسلام بل کی انہی قانون سازوں نے مخالفت کردی ہے اور حکومتی اور اپوزیشن بینچوں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے دستاویز کو پڑھے بغیر ہی اس کو ووٹ دیا۔

جمعہ کو جب ایک دن کے بعد اسمبلی کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو وزرا سمیت اس بل کے مخالفین اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور 22جولائی کو ایوان سے منظور تحفظ بنیاد اسلام بل کے خلاف احتجاج کیا۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والے ’تحفظ اسلام‘ قانون پر تنقید

حکومتی اراکین نے مذکورہ قانون سازی کو تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف سازش قرار دیا۔

حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے قانون ساز حسین جہانیاں گردیزی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ وفاقی شریعت عدالت کی منظوری سے بل میں ترمیم کرے جبکہ وزیر قانون محمد بشارت راجا نے ایوان کو یقین دلایا کہ اراکین میں اتفاق رائے تک بل پر مزید پیشرفت نہیں کی جائے گی۔

مسلم لیگ (ن) کے پیر اشرف رسول نے دعویٰ کیا کہ یہ بل وزیر اعظم کے خصوصی مشیر شہزاد اکبر کے مشورے پر منظور کیا گیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی یاور عباس بخاری نے اس بل کی حمایت کرنے پر ایوان سے معافی مانگی۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے متعدد قانون سازوں نے الزام لگایا کہ جب اس دستاویز کو ووٹ کے لیے پیش کیا گیا تو انہیں اس کے بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا تھا، انہوں نے اعتراض کیا کہ ایوان کسی بھی فرد کو اس بات کی ہدایت نہیں کر سکتا کہ اسے کس فرقے سے تعلق رکھنا چاہیے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس بل سے صوبے میں فرقہ وارانہ تقسیم پیدا ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ اسمبلی میں حضرت محمدﷺ کے نام کے ساتھ خاتم النبیین لکھنے کی قرار داد منظور

انہوں نے تمام مکاتب فکر پر مشتمل علما کی کمیٹی سے سفارشات طلب کرتے ہوئے بل کی واپسی اور اس میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔

حکومتی اراکین نے کہا کہ اگر یہ بل سرکاری معاملات کے طور پر پیش کیا گیا تھا تو کابینہ کی منظوری بھی انہیں دکھانی چاہیے یا اگر اسے نجی ممبر بل کی حیثیت سے منظور کیا گیا، جس کی دستاویزات کا قائمہ کمیٹی نے جائزہ لیا تھا۔

پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ جو کمیٹی کے رکن بھی تھے، نے بھی اس بل کو مسترد کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ وہ پینل کا حصہ تھے لیکن انہیں جانچ پڑتال کے عمل سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

اس پر وزیر قانون نے کہا کہ بل پر اس کی منظوری کے بعد اعتراضات اٹھائے گئے ہیں اور اسی لیے اسے قانون کی شکل دینے اور دستخط کرنے کے لیے گورنر کو نہیں بھیجا گیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کمیٹی کی توہین مذہب کے قانون میں تبدیلی کی سفارش

انہوں نے کہا کہ سب کے تحفظات دور کرنے کے لیے قانون میں ترمیم کے سلسلے میں علما کی رائے لینا ہو گی اور ایوان کو یقین دلایا کہ قانون سازوں میں مکمل اتفاق رائے پیدا کرنے تک اس بل پر مزید پیشرفت نہیں ہو گی۔

وزیر نے اراکین اسمبلی پر بھی طنز کیا کہ ان کا فرض ہے کہ ہر بل کو ووٹ ڈالنے یا اس کے خلاف جانے سے پہلے پوری طرح سے پڑھیں۔

بعدازاں راجا بشارت نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی اس بل سے متعلق تنازع اور اس بارے میں تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت جو اقدامات اٹھائے گی اس سے آگاہ کیا۔

پنجاب تحفظ بُنیاد اسلام بل 2020 کی منظوری کا دعویٰ اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے کیا ہے جس میں قابل اعتراض اور/یا نفرت انگیز مواد کی اشاعت کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والا دوہرے جرم کا مرتکب‘

اس میں تمام پبلشرز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ شائع ہونے والی کتاب کے ہر ایڈیشن کی کم از کم پانچ کاپیاں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلیشنس کے پاس پیش کریں جس کو پرنٹنگ پریس، بک اسٹورز اور پبلشنگ ہاؤسز کا معائنہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور اس طرح کے مواد پر مشتمل کتابوں کو طباعت سے پہلے یا بعد میں ضبط کر لیا جائے۔

ڈی جی پی آر اس معاملے میں ملوث کسی غلطی کی تحقیقات، جائزہ لینے یا اس کا پتا لگانے کے لیے موقع پر یا کسی بھی نامزد دفتر میں پبلشر کے اکاؤنٹس کے ریکارڈ اور کتابوں کی جانچ بھی کرسکتا ہے۔

یہ خبر 8اگست 2020 بروز ہفتہ ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں