کورونا وائرس کی کونسی علامت پہلے نظر آتی ہے؟ سائنسدانوں نے ممکنہ جواب جان لیا

16 اگست 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

ویسے تو ابھی تک یہ واضح نہیں کہ نئے کورونا وائرس کی کونسی علامات پہلے نظر آتی ہیں مگر امریکی ماہرین کے خیال میں انہوں نے ان نشانیوں کے نمودار ہونے کی ترتیب کی شناخت کرلی ہے۔

سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ان 55 ہزار سے زائد کووڈ 19 کے کیس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جو عالمی ادارہ صحت نے چین میں 16 سے 24 فروری کے دوران اکٹھا کیا تھا۔

طبی جریدے فرنٹیئرز ان پبلک ہیلتھ جرنل میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس کے ایک مریض کو جس ترتیب سے علامات کا سامنا ہوسکتا ہے وہ کچھ اس طرح ہوسکتی ہے بخار، کھانسی، دل متلانا، قے اور پھر ہیضہ۔

مگر انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ یہ ترتیب الٹی بھی ہوسکتی ہے یعنی ہیضہ سب سے پہلے، پھر دل متلانے/قے، کھانسی اور آخر میں بخار، مگر اس کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ علامات نمودار ہونے کی یہ ترتیب سنگین اور معمولی شدت والے کیسز میں یکساں تھی۔

محققین کا کہنا تھا کہ ابتدائی علامات کے بارے میں جاننا کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ بیماری انفلوائنزا کے مقابلے میں 2 یا 3 گنا زیادہ آسانی سے لوگوں میں منتقل ہوتی ہے اور بیک وقت متعدد کیسز سامنے آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 ایک سے دوسرے میں منتقل ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، تو تیز ترین ٹیسٹنگ اور سماجی دوری اہم ہیں، خاص طور پر اس وقت جب مختلف ممالک میں سماجی دوری اور قرنطینہ کے اقدامات کو نرم کردیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے نتائج میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بخار ہی ممکنہ طور پر وہ پہلی علامت ہے جو کووڈ 19 کے بالغ مریضوں میں سب سے پہلے نظر آتی ہے۔

ان کے بقول یہ ترتیب اس بارے میں جاننے کے لیے بہت زیادہ اہم ثابت ہوسکتی ہے جب فلو کا سیزن کووڈ 19 کے ساتھ مل جائے گا، اس سے ڈاکٹروں کو یہ تعین کرنے میں مدد مل سکے گی کہ مریضوں کی نگہداشت کے لیے کونسے اقدامات کیے جانے چاہیے ، تاکہ ان کی حالت کو بگڑنے سے بچایا جاسکے۔

محققین نے کووڈ 19 کی علامات کی ترتیب کا موازنہ انفلوائنزا سے بھی کیا اور اس مقصد کے لیے شمالی امریکا، یورپ اور جنوبی ہیمپشائر کے ڈھائی ہزار کے قریب فلو کیسز کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا جو 1994 سے 1998 کے دوران جمع کیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ علامات کی ترتیب اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ ہر بیماری کی پیشرفت مختلف ہوتی ہے، یعنی ڈاکٹر بہت جلد یہ اندازہ یا شناخت کرسکتے ہیں کہ کس فرد کو کووڈ 19 ہے یا کسی اور بیماری نے اسے ہدف بنایا ہے۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے دریافت کیا گیا تھا کہ کووڈ 19 کی علامات ظاہر ہونے میں اوسطاً 8 دن کا عرصہ لگتا ہے، جو کہ سابقہ 4 سے دن کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔

یہ دعویٰ اس حوالے سے اب تک مریضوں کے نمونوں کی سب سے بڑی تعداد کے تجزیے کے بعد چین میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں کیا گیا۔

پیکانگ یونیورسٹی میں ووہان سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد کی شناخت کی گئی جو کووڈ 19 سے متاثر تو تھے مگر ان میں علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں اور پھر ان کا جائزہ اس وقت تک لیا گیا جب تک ان میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔

طبی جریدے جرنل سائنس ایڈوانسز میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ابھی محدود ڈیٹا، خود سے کی جانے والی رپورٹس اور نمونوں کی کم تعداد کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ بیماری ظاہر ہونے کا دورانیہ 4 سے 5 دن کا ہے۔

اس تحقیق میں بیماری ظاہر ہونے کے دورانیے کے تعین کے لیے ایک کم لاگت طریقہ کار تشکیل دیا اور اس کا اطلاق کووڈ 19 کے لگ بھگ 11 سو مریضوں کیا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ مریضوں میں علامات ظاہر ہونے میں اوسطاً 7.75 دن لگتے ہیں جبکہ 10 فیصد میں یہ دورانیہ 14.28 دن رہا۔

محققین کا کہنا تھا کہ 10 فیصد مریضوں میں علامات ظاہر ہونے کا وقت طبی حکام کے لیے باعث تشویش ہوسکتا ہے جو 14 دن کے قرنطینہ پر انحصار کرتے ہیں۔

یہ بات پہلے ہی ثابت ہوچکی ہے کہ کورونا وائرس کے شکار افراد علامات کے بغیر بھی وائرس کو دوسروں میں منتقل کرسکتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ بہت خاموشی اور تیزی سے پھیلتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں