ایف اے ٹی ایف سے متعلق ایک اور بل سینیٹ میں مسترد

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2020
سینیٹ اجلاس میں 31 اراکین نے بل کی منظوری کے حق میں جبکہ 34 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیے—فائل فوٹو: اے پی پی
سینیٹ اجلاس میں 31 اراکین نے بل کی منظوری کے حق میں جبکہ 34 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیے—فائل فوٹو: اے پی پی

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والا انسداد دہشت گردی ایکٹ (ترمیمی) بل 2020 ایک روز بعد ہی سینیٹ میں مسترد ہوگیا جس کے بعد یہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق سینیٹ میں مسترد ہونے والا تیسرا بل بن گیا۔

خیال رہے کہ ایوان بالا میں اپوزیشن کو عددی اکثریت حاصل ہے چنانچہ سینیٹ کے آج ہونے والے اجلاس میں 31 اراکین نے بل کی منظوری کے حق میں جبکہ 34 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیے۔

مسترد ہونے والے انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020 کے مطابق تفتیشی افسر عدالت کی اجازت سے 60 روز کے لیے دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کا سراغ لگانے کے لیے خفیہ کارروائی کرسکتا ہے جس میں جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے رابطوں اور کمپیوٹر سسٹم کی نگرانی کی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انسداد دہشت گردی ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور

اس کے علاوہ تفتیش میں توسیع کے لیے عدالت میں تحریری درخواست بھی جمع کروائی جاسکتی ہے جس کے نتیجے میں عدالت اس اجازت کو مزید 60 روز کی توسیع دے سکتی ہے۔

بل میں کہا گیا تھا کہ یہ قانون کسی دوسرے قانون سے متصادم نہیں ہوگا اور وفاقی حکومت طریقہ کار کو مضبوط بنائے گی اور احکامات کے نفاذ کے لیے قواعد وضع کرے گی۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ دہشت گردی کے لیے فنڈز فراہم کرنا ملک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ اور بے عزتی کا باعث ہے، دہشت گردی کے لیے مالی معاونت ان عناصر کو فائدہ پہنچاتی ہے جو نہ صرف ملک بلکہ اس کے اتحادیوں کے داخلی اور خارجی امن کے لیے خطرہ ہیں۔

بل میں مزید کہا گیا تھا کہ 'بل پیش کرنے کا بنیادی مقصد قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اور عدالتوں کی بااختیار مدد کے ساتھ ان لعنتوں کا خاتمہ کرنے کے قابل بنانا ہے'۔

کوآپریٹو سوسائٹی ایکٹ ترمیمی بل منظور

دریں اثنا سینیٹ نے کوآپریٹو سوسائٹیز ترمیمی بل 2020 منظور کرلیا جو مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے ایوان میں پیش کیا تھا۔

بل کے اغراض و مقاصد کے مطابق ایف اے ٹی ایف کا مطالبہ ہے کہ کوآپریٹو سوسائٹیز کی رجسٹریشن/ ریگولیشن کو مضبوط اور شفاف بنایا جائے اور اس ترمیم کا مقصد دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کو روکنا ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق مزید دو بل منظور کرلیے

اس بل کے مطابق رجسٹرار متعلقہ حکام کی درخواست پر سوسائٹی کے بینفشل اونر، افسران اور سوسائٹی کے اراکین کی معلومات فراہم کرے گا۔

اس کے علاوہ رجسٹرار اراکین سوسائٹی کے اثاثے اور شئیر، پتے، سوسائٹی کی املاک اور مالی صورت حال کی معلومات بھی متعلقہ حکام کو فراہم کرے گا۔

بل کے مطابق قانون بننے کے 3 ماہ کے اندر سوسائٹی رجسٹرار کو بینفشل مالکان کی معلومات فراہم کرنا ہوگی۔

اگر سوسائٹی رجسٹرار معلومات فراہم نہیں کرے گی تو سوسائٹی کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائے گی، اس کے علاوہ رجسٹرار 5 سال کے عرصے تک ان سوسائٹیز کا ریکارڈ رکھے گا جن کی رجسٹریشن منسوخ ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: انسداد دہشت گردی ترمیمی بل سینیٹ سے بھی منظور

بل کے مطابق کوئی سوسائٹی شئیر، شئیر وارنٹ، قرضے کو الاٹ، جاری، فروخت یا تفویض نہیں کرے گی، اس کی ممانعت ہو گی اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والی سوسائٹی، رکن افسر کو 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔

کوآپریٹو سوسائٹی کا جو رکن، ملازم، افسر یا سیکریٹری فراڈ یا کرپشن میں ملوث پایا گیا اسے 5 سال تک سزا اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔

علاوہ ازیں اگر سوسائٹی فراڈ یا کرپشن میں مجرم ثابت ہوئی تو اس پر سرمایے کا ایک چوتھائی یا ایک کروڑ روپے کا جرمانہ ہوگا۔

ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی کا معاملہ

خیال رہے کہ پاکستان کو جون 2018 میں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اسے بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے مالیاتی جرائم کی روک تھام کے 27 نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنا ہے۔

چنانچہ حکومت نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق بلز کی منظوری کے لیے اپوزیشن کے ساتھ اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے مشاورت کی تھی۔

مزید پڑھیں: اسپیکر قومی اسمبلی ایف اے ٹی ایف قانون سازی پر اتفاق رائے کیلئے پُر اُمید

حکومت کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کی متعدد ترامیم کی تجاویز قبول کرنے کے بعد ملک کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی شرائط سے متعلق مجموعی طور پر 7 بلز قومی اسمبلی سے منظور ہوچکے تھے۔

تاہم 25 اگست کو سینیٹ میں اکثریت رکھنے والی اپوزیشن نے قومی اسمبلی سے منظور شدہ 2 اہم بلوں کو مسترد کردیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے اسے اپوزیشن کی جانب سے ملک کو گرے لسٹ سے نکالنے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا تھا جبکہ وزیر اطلاعات نے اپوزیشن کی مجوزہ ترامیم کو این آر او مانگنے سے تشبیہہ دی تھی۔

18 ویں ترمیم کے تحت اگر پارلیمنٹ کے ایک ایوان سے منظور شدہ بل کو دوسرے نے مسترد کردیا ہو تو یہ اس وقت ہی قانون بن سکتا ہے جب وہ دونوں ایوانوں کی مشترکہ نشست سے منظور ہوجائے۔

تبصرے (0) بند ہیں