اثاثہ جات کیس: ایف آئی اے نے بھی شہباز شریف،اہل خانہ کےخلاف تحقیقات شروع کردیں

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2020
نیب کی جانب سے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تحقیقات کررہا ہے—فائل/فوٹو:اے ایف پی
نیب کی جانب سے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تحقیقات کررہا ہے—فائل/فوٹو:اے ایف پی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات سے متعلق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے بھی تفتیش شروع کردی۔

لاہور کی احتساب عدالت میں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی انکوائری کے معاملے پر سماعت ہوئی اور ایف آئی اے نے حمزہ شہباز سے جیل میں بیان ریکارڈ کرنے کی اجازت طلب کی۔

ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل لاہور نے حمزہ شہباز کا جیل میں بیان ریکارڈ کرنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی انکوائری جاری ہے۔

مزید پڑھیں:لاہور جیل میں قید مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز کورونا وائرس کا شکار

عدالت کو بتایا گیا کہ حمزہ شہباز العربیہ اور رمضان شوگر مل سمیت دیگر کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہیں اور کیس کی تفتیش میں ان کا بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

ایف آئی اے نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز اس وقت جیل میں قید ہیں جہاں ان کا بیان ریکارڈ کرنے کی اجازت دی جائے۔

دلائل کے بعد عدالت نے جیل میں حمزہ شہباز کا بیان ریکارڈ کرنے کی اجازت دے دی۔

یاد رہے کہ نیب نے رمضان شوگر ملز سے متعلق دائر ضمنی ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ان کے بیٹے اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا اور احتساب عدالت نے گزشتہ ماہ ان پر فرد جرم عائد کر دی تھی۔

احتساب عدالت کے جج امجد نذیر چوہدری نے رمضان شوگر ملز ریفرنس کی سماعت کی تھی جہاں شہباز شریف اپنے وکیل امجد پرویز کے ہمراہ پیش ہوئے جبکہ حمزہ شہباز کو جیل سے لاکر عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

بعد ازاں حمزہ شہباز کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے اور انہیں احتساب عدالت میں پیش نہیں کیا گیا تھا، شہباز شریف نے تصدیق کی تھی کہ ان کے بیٹے میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:رمضان شوگر ملز ضمنی ریفرنس: شہباز شریف، حمزہ شہباز پر فرد جرم عائد

شہباز شریف نے کہا تھا کہ پرویز مشرف دور کا سامنا کرنے کے بعد حمزہ شہباز 'نیب نیازی گٹھ جوڑ کے سیاسی انتقام کا بہادری سے مقابلہ کر رہا ہے'۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے حکومت پر الزام لگایا تھا کہ حمزہ کو 'ضروری طبی امداد' نہیں دی جارہی ہے۔

ٹوئٹر پر اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 'یہ جابرانہ حکومت سیاسی مخالفین کو غیر انسانی حالات میں رکھ کر ان کی صحت کے ساتھ کھیل رہے ہیں، میرا بھائی (حمزہ) اس ظلم و بربریت کا تازہ ترین شکار ہے جس میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے لیکن انہیں طبی امداد نہیں دی جارہی ہے'۔

انہوں نے کہا تھا کہ حمزہ کو 'ایک سال سے زائد عرصے سے ناجائز اور غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے'۔

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو نیب نے گزشتہ سال جون میں اپنی تحویل میں لیا تھا اور نیب ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق دو مختلف کیسز کی تحقیقات کر رہا ہے۔

منی لانڈرنگ ریفرنس

خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

بعد ازاں 20 اگست کو لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

مزید پڑھیں:میرے فیصلوں کی وجہ سے خاندانی کاروبار کو نقصان پہنچا، شہباز شریف

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

تبصرے (0) بند ہیں