وزیراعظم کی گورنر سندھ کو جزائر کے معاملے کا حل نکالنے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2020
زیراعظم ہاؤس میں پنجاب کے راوی ریورفرنٹ اربن ڈیولپمنٹ اور سندھ کے بنڈل جزیرے کے منصوبوں پر ہونے والے پیش رفت کاجائزہ لیا گیا—تصویر: پی آئی ڈی
زیراعظم ہاؤس میں پنجاب کے راوی ریورفرنٹ اربن ڈیولپمنٹ اور سندھ کے بنڈل جزیرے کے منصوبوں پر ہونے والے پیش رفت کاجائزہ لیا گیا—تصویر: پی آئی ڈی

اسلام آباد: وفاق کی جانب سے 2 جزائر کو سرمایہ کاری کا گڑھ اور بین الاقوامی سیاحتی مقام بنانے کے لیے ان کا کنٹرول سنبھالنے کے اقدام پر سندھ کی جانب سے سخت تنقید اور اضطراب کا اظہار کیا گیا تھا۔

چنانچہ وزیراعظم عمران خان نے گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کو ہدایت کی کہ صوبائی حکومت سے مشاورت کر کے منصوبے کے حوالے سے معاملات کا حل نکالا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم ہاؤس میں پنجاب کے راوی ریورفرنٹ اربن ڈیولپمنٹ اور سندھ کے بنڈل جزیرے کے منصوبوں پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس کے بعد گورنر سندھ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی جس میں انہوں نے مذکورہ بالا ہدایات دیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی پیکج کا جزائر کی آبادکاری سے کوئی تعلق نہیں ہے، گورنر سندھ

وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے کے مطابق گورنر سندھ کے ساتھ ملاقات میں وزیراعظم نے کہا کہ ’بنڈل آئی لینڈ منصوبہ سرمایہ کاری اور ملازمت کے بے پناہ مواقع پیدا کرے گا‘۔

راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ منصوبے اور بنڈل آئی لینڈ منصوبے پر اجلاس میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) انور علی حیدر، راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین راشد عزیز اور سندھ اور پنجاب کے چیف سیکریٹریز نے شرکت کی۔

اجلاس کے حوالے سے جاری باضابطہ اعلامیے کے مطابق متنازع صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تشکیل دی گئی پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین بھی شریک ہوئے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اب تک کسی کو اس عہدے کے لیے تعینات نہیں کیا گیا۔

اس ضمن میں دریافت کیے جانے پر حکومتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ عمران امین نے پی آئی ڈی اے کے قائم مقام چیئرمین کی حیثیت سے اجلاس میں شرکت کی تھی۔

مزید پڑھیں: وفاق کے سندھ کے جزائر کا انتظام سنبھالنے کے اقدام پر تنقید

آرڈیننس کے تحت وفاقی حکومت 4 سال کے لیے پی آئی ڈی اے کے چیئرمین کے عہدے پر کسی 22 گریڈ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسر ’جس کا رینک لیفٹیننٹ جنرل یا مساوی عہدے سے کم نہ ہو، تجربہ کار پروفیشنل یا کاروباری شخصیت کو تعینات کرسکتی ہے'۔

یاد رہے کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہ لیتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی نے کراچی کے ساحل کے ساتھ موجود ان دو جزائر کا کنٹرول وفاق کو دینے میں مدد فراہم کرنے کے لیے پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020 کو نافذ کیا تھا۔

جس کا مقصد ان جزائر کی بحالی کے مستقل عمل، ماسٹر پلاننگ، اربن پلاننگ اور ان دو جزائر کو تجارتی، لاجسٹک مراکز، ڈیوٹی فری ایریاز اور بین الاقوامی سیاحتی مقام کے طور پر ترقی دینا ہے۔

پی آئی ڈی اے آرڈیننس کے نٖفاذ نے سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سخت تنقید کو جنم دیا تھا اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس اقدام کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے بھارت کے مقبوضہ کمشیر کے غیر قانونی الحاق کے مترداف قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت نے جزائر سے متعلق وفاقی حکومت کا صدارتی آرڈیننس مسترد کردیا

اس اقدام کو ’پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سندھ کے جزائر کا غیر قانونی الحاق‘ قرار دیتے ہوئے چیئرمین پی پی پی نے الزام عائد کیا تھا کہ وفاقی حکومت ’ان جزائر کا الحاق کرنا چاہتی ہے جو صوبے کی ملکیت ہیں تا کہ اپنے دوست سرمایہ کاروں کو ہاؤسنگ اور سیاحت سمیت اس طرح کے دوسرے منصوبے تعمیر کرنے کی اجازت دے کر مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے ان کا استحصال کرے،جو کہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے حوالے کردیے گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Oct 09, 2020 01:55pm
اس طرح کراچی کی رقم کراچی یا سندھ کی رقم سندھ میں ہی لگے گی مگر اس سے پورے پاکستان کو فائدہ ہوگا کیوں کہ کراچی کی بندرگاہ پورا ملک استعمال کرتا ہے اور اس سے کراچی کے رہنے والے کو بھی فائدہ ہوگا اور کنٹینر سے لدی گاڑیاں براہ راست بندرگاہ تک پہنچ سکیں گی۔ پاکستان کی آبادی اور ان شاء اللہ اس کی ترقی کی صورت میں کراچی کی بندرگاہ کی ترقی کے انتہائی زیادہ اور روشن امکانات ہے۔ اس کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی ضروری ہے اور اس سے ہمیشہ کے لیے کراچی کو فائدہ ملتا رہے گا۔
KHAN Oct 09, 2020 04:36pm
تبصرہ نمبر ایک اس سے پہلے کی خبر میں بتایا گیا تھا کہ ان جزائر کا رقبہ 10000 ایکڑ سے زیادہ ہے۔ بحریہ ٹاؤن نے16 ہزار ایکڑ کے لیے عدالت کو 450 ارب روپے سے زیادہ کی ادائیگی پر رضامندی اختیار کی اور قسطیں بھی ادا کر رہی ہے ۔ لہذا وفاقی حکومت ہو یا صوبائی اگر وہ جزائر پر کسی قسم کی تعمیرات کرنا چاہے تو عدالت کو کم از کم 500ارب روپے کی ادائیگی کی جائے۔ اس 500 ارب روپے سے کیماڑی بندرگاہ سے پل ان جزائر و ابراہیم حیدری سے ہوتا ہوا پورٹ قاسم تک بنایا جائے تاکہ یہ دونوں بندرگاہیں آپس میں لنک ہو سکے اور اسی طرح اس سے ملیر ندی ایکسپریس ہائی وے تعمیر کیا جائے جس کا رابطہ سمندری پل سے بھی ہو گا اور اس کو کنٹینر کے لیے مخصوص کر دیا جائے اس سے کراچی شہر میں ٹریفک کی صورتحال حال میں بہت آسانی پیدا ہوگی۔