مسلم لیگ(ن) کا مسئلہ ووٹ کو عزت دو نہیں، لوٹ مار کو عزت دو ہے، شہباز گِل

اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2020
وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گِل پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں— فوٹو: اسکرین شاٹ/ ڈان نیوز
وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گِل پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں— فوٹو: اسکرین شاٹ/ ڈان نیوز

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے جلیل شرقپوری سے ناروا سلوک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کا مسئلہ ووٹ کو عزت دو نہیں بلکہ لوٹ مار کو عزت دو ہے۔

لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معاون خصوصی نے کہا کہ مجھے کیوں نکالا کے بیانیے سے نکل کر ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ آیا اور اس میں سے بیانیہ نکلا کہ میں بیمار ہوں اور اس میں سے بیانیہ نکلا کہ اب ہمیں انقلاب لانا ہے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف چند پیسوں کیلئے غیر ملکی آلہ کار بن کر کام کرتے ہیں، شہباز گل

ان کا کہنا تھا کہ اسی کی بنیاد پر مسلم لیگ(ن) یا مسلم لیگ نااہل کی کوشش ہے کہ عوام کو اسی طرح بیوقوف بنایا جائے جیسا کہ 80 اور 90 کی دہائی میں بنایا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کہ کل جلیل شرقپوری کے ساتھ جو کیا گیا، کیا وہ ہمارا سیاسی کلچر ہے، سیاسی کلچر تو ہے جو میاں نواز شریف اور ان کے بھائی نے بنایا لیکن کیا ہمارا اخلاقی کلچر ہے؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیا جو کیا گیا وہ کیا جانا چاہیے تھا، ہاتھا پائی تک کی نوبت آ گئی، انہیں زدوکوب کیا گیا، ان کی پگڑی اچھالنے کی کوشش کی گئی، ان سے گولی گلوچ کی گئی، ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میرا لیڈر نواز شریف ہے لیکن میں ان کے فوج اور پاکستانی اداروں کے خلاف بیانیے کے ساتھ نہیں ہوں۔

شہباز گل نے کہا کہ مجھے پاکستان کی کسی ثقافت، سماجی یا قانونی وجہ سے بتا دیجیے کہ کہیں پر یہ خلاف قانون یا ضابطہ ہو، انہوں نے کہیں پر قانون نہیں توڑا، سوچنے کی بات ہے کہ ایک باریش آدمی کو بے عزت اور ان کی تذلیل کی لیکن اس کے لیے ہم پہلے اس کا پس منظر دیکھ لیتے ہیں کہ بات یہاں تک پہنچی کیسے کیوں کہ ہم تو ووٹ کو عزت دینے والے تھے، تو کیا جلیل شرقپوری صاحب ووٹ لے کر نہیں آئے؟، کیا ان کا اسمبلی میں ووٹ نہیں ہے؟۔

ان کا کہنا تھا کہ رہی بات کہ وہ عثمان بزدار سے ملے تو کسی بات پر تو کھڑے ہو جائیں آپ، کہیں پر تو انسانیت دکھائیں، کیا جب آپ اپوزیشن میں تھے تو کیپٹن ریٹائرڈ صفدر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے نہیں ملتے رہے، تو کیپٹن صاحب کو تو آپ نے نہیں پوچھا، وہ کہتے تھے کہ میں اپنے حلقے کے فنڈز کے لیے مل رہا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو فوج نے پال کر سیاست دان بنایا، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص رکن صوبائی اسمبلی بن جاتا ہے اور اگر اس کے حلقے میں کام ہے تو وہ کس سے جا کر ملے، آپ سے سارا کچھ کرتے رہے ہیں تو درست ہے، کوئی اور کرے تو درست نہیں کیونکہ ووٹ کو عزت دو کا مسئلہ نہیں ہے، مسئلہ ہے لوٹ مار کو عزت دو، مسئلہ ہے لندن کے ان فلیٹوں کو عزت دو جو ہم نے لوٹ مار سے بنائے ہیں، مسئلہ ہے شریف فیملی کو عزت دو، جن میں شاید کوئی ایسی چیز ہے کہ وہ اشرف المخلوقات سے بھی کوئی اوپر کی چیز ہیں، تو ان کی عزت ہے، باقی کوئی قاعدہ یا قانون نہیں ہے۔

معاون خصوصی نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 1984 میں میاں صاحب پنجاب حکومت میں آئے، اچانک وزیر خانہ بنے، وہاں جونیجو صاحب کی اسمبلی توڑ دی گئی، جب جونیجو صاحب کی اسمبلی توڑی تو کیونکہ ہم نے ووٹ کو عزت دینی تھی تو ہم جونیجو صاحب کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے، ہم نے فدا حسین کے ذریعے ایک نیا گروپ بنوا دیا اور جب عدالت نے فیصلہ دیا کہ جونیجو صاحب کو غلط اور غیر آئینی طریقے سے نکالا گیا ہے لیکن انتخابات قریب ہیں لہٰذا الیکشن لڑنے دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ فدا حسین صاحب کے گروپ کو نواز شریف نے جوائن کیا، پھر قسمت اور ملکی تاریخ نے ایک ایسا چیپٹر دیکھا جو کبھی نہیں دیکھا تھا، نگراں وزیر اعلیٰ نواز شریف نے خود چار حلقوں سے الیکشن لڑا اور میرے خیال میں دو سے جیتے، دو سے ہارے، نگراں وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے مہم چلائی، کیا آپ نے کبھی دنیا میں ایسا سنا ہے۔

مزید پڑھیں: موجودہ حکومت سے مذاکرات کی گوئی گنجائش نہیں، مریم نواز

انہوں نے مزید کہا کہ جب بے نظیر صاحبہ حکومت میں آگئیں تو پہلے دن سے ان کے خلاف کا کرنا شروع کردیا یعنی پھر سے ووٹ کو عزت دینا شروع کی کیونکہ شہید بے نظیر ووٹ لے کر تھوڑی آئی تھیں، وہ تو پیسے دے کر آئی تھیں، ووٹ تو صرف نواز شریف لے کر آتے ہیں۔

شہباز گِل نے کہا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا تھی اس لیے سب سے بڑے اصطبل کا انتظام کیا گیا اور وہ چھانگا مانگا کا جنگل تھا، وہاں ریسٹ ہاؤس میں باہر سے تالے لگا دیے گئے اور اندر تمام سہولیات میسر تھیں، لوگوں قید کیا گیا، خریدا گیا تاکہ بے نظیر کی حکومت گرائی جا سکے، وہ نہیں گرائی جا سکی اور یہ فیل ہوئے لیکن باز نہیں آئے اور اس کے بعد بھی کاوش جاری رکھی اور صدر کے ساتھ مل کر حکومت گرائی اور خود حکومت میں آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف دوسری دفعہ صدر کے ساتھ مل کر، سازش کر کے محترمہ کی حکومت گرا کے، پچھلے دروازے کو عزت دے کر پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے تھے، پھر انہیں لگا کہ اس وقت کے آرمی چیف مسئلہ بنیں گے تو ان کو ووٹ کو عزت دیتے ہوئے بی ایم ڈبلیو دینے کی کوشش کی گئی جو لینے سے انہوں نے معذرت کر لی۔

معاون خصوصی نے تنقید کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک فیصلہ ان کے خلاف آیا اور جسٹس سجاد علی شاہ نے کیونکہ ووٹ کو عزت نہیں دی تو انہوں نے ووٹ کو عزت دیتے ہوئے سپریم کورٹ پر حملہ کیا، ججز پر تشدد کیا، توڑ پھوڑ کی۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے نواز شریف کو واپس لائیں ، شہزاد اکبر

ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف آئے تو ہماری اخلاقی طاقت اتنی تھی کہ ایک آرمی چیف جو گھر سے باہر گیا ہوا تھا، اس کو بیرون ملک ہوتے ہوئے برطرف کردیا، واپس آنے کا انتظار نہیں کیا، پاکستان کی جگ ہنسائی کا نہیں سوچا کیونکہ ووٹ کو عزت نہیں بلکہ نواز شریف کو عزت دینی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف سے کہا کہ بھارت سے جا کر پنے جہاز میں ایندھن بھروا لیں، یہ بھی ووٹ کو عزت دے رہے تھے، جب پکڑے گئے تو ایک دوست کے ساتھ مل کر ووٹ کو عزت دی اور ایک معاہدہ کیا اور راتوں رات نکل گئے۔

انہوں نے کہا کہ 2008 میں انہوں نے مسلم لیگ ق میں فارورڈ بلاک بنایا اور بے تحاشا پیسہ خرچ کرکے میڈیا پر بھی ووٹ کو عزت دی لیکن پھر طاہر القادری آ گئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا بھی ووٹ بینک ہے لیکن یہ نہیں مانے اور کہا کہ اس کا فیصلہ ہمارا جسٹس گلو بٹ کرے گا اور اس نے جو ڈنڈا پھیرا وہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے جو لوٹ مار اکٹھے کرنے کا منصوبہ تھا لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ پیپلز پارٹی کو زیادہ عزت مل گئی ہے جو درست نہیں ہے لہٰذا ہم نے کالا کوٹ پہنا اور ووٹ کو عزت دینے کے لیے پھر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

مزید پڑھیں: بغاوت کے مقدمے کا تنازع نیا موڑ اختیار کرگیا

شہباز گِل نے کہا کہ پہلے تو ہم نے یوسف رضا گیلانی کو وہاں سے نااہل کروایا اور اس کے بعد ہم دوبارہ میمو گیٹ لے کر پہنچے کیونکہ زرداری صاحب کو نکلوانا تھا، ووٹ کو عزت دینی تھی اور کیونکہ جلیل شرقپوری نے اس کے برعکس ووٹ کو عزت دی تو ہم نے کہا کہ گلو بٹ پرانا ہو گیا ہے، اب میاں رؤف کو بدتمیزی ے لیے چھوڑتے ہیں، کیا کوئی مان سکتا ہے کہ ان کی پارٹی کی سینئر قیادت کی مرضی کے بغیر یہ کرتوت ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا کہ ان کے ارسطور احسن اقبال کہتے تھے کہ سزا یافتہ منظور نہیں، تو ان سے پوچھ لیں کہ آج بھی یہی خیال ہیں یا اب مختلف ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں