پاکستان بار کونسل کا جسٹس عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2020
جسٹس عیسی سپریم کورٹ کے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
جسٹس عیسی سپریم کورٹ کے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

اسلام آباد: پاکستان بار کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے اور واضح کی گئی وجوہات، جن کی بنیاد جسٹس صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیا گیا تھا، اس کا خیر مقدم کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وکلا برادری کے امور کو منظم کرنے والے ادارے پاکستان بار کونسل نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔

پی بی سی کے وائس چیئرمین عابد ساقی اور اس کے ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین اعظم نذیر تارڑ کا مشترکہ بیان میں کہنا تھا کہ بار کے رہنماؤں کا صدر مملکت سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں بغیر مشاورت اور آئینی ضرورت کے مطابق اپنے ذہن کا اطلاق کیے بغیر ریفرنس بھیجا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ

انہوں نے ڈاکٹر فروغ نسیم اور شہزاد اکبر، جو اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے سربراہ بھی ہیں، ان سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ لوگ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انکوائری شروع کرنے اور ریفرنس تیار کرنے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ان دونوں افراد نے عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔

بیان میں کہا گیا کہ تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی آبزرویشنز اور وجوہات نے واضح طور جسٹس عیسیٰ کے خلاف سیاسی طور پر حوصلہ افزا ریفرنس دائر کرنے میں حکومت اور اس کے اداروں کی آئینی خلاف ورزیاں، غیرقانونی عمل اور بدنیتی کو ثابت کردیا۔

اس میں کہا گیا کہ وکلا برادری عدالت کے تفصیلی فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے حالانکہ اس میں حکومت، اس کے وزرا اور دیگر حکام کے خلاف کارروائی کا کوئی حکم نہیں دیا گیا جو حقیقت میں عدلیہ کے مقدس ادارے پر دباؤ ڈالنے اور اس کی بدنامی کا باعث بننے کے مقصد سے ریفرنس دائر کرنے کے ذمہ دار تھے۔

مذکورہ بیان میں یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ پی بی سی اپنی پہلے سے دائر کردہ اس نظرثانی درخواست میں مزید چیزیں شامل کرے گی، جس میں 19 جون کے مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو حذف کرنے کا کہا گیا تھا۔

پی بی سی سمیت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ پیراگراف نمبر 3 سے 11 کا مواد یا ہدایات/آبزرویشنز، غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہیں لہٰذا انہیں حذف کیا جائے چونکہ انہوں نے غلطی کی ہے اور ریکارڈ پر غلطی موجود ہے تو اس پر نظرثانی کرکے اسے حذف کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ کیس میں 'منی لانڈرنگ' کی دفعات پر وضاحت کردی

خیال رہے کہ مختصر حکم میں 10 رکنی بینچ کی اکثریت 7 ججوں نے پیراگرافس 3 سے 11 کے ذریعے ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی دستخط شدہ رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری کو جمع کروائیں، جس میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں سے لندن کی 3 جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع آمدن سے متعلق تفصیلات حاصل کرنے کے بعد کمشنر ان لینڈ ریونیو کی کارروائی کی تفصیلات شامل ہوں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل اپنے ازخود دائرہ کار کے اختیار کے تحت آئین کے آرٹیکل 209 کے مقاصد کے لیے کوئی ایکشن/کارروائی شروع کرسکتی ہے۔

علاوہ ازیں ایک اور بیان میں پی بی سی کا کہنا تھا کہ وہ فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز خاص طور پر یہ کہ صدارتی ریفرنس بدنیتی کے ساتھ داغدار تھا اور صدر آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت اپنی غور شدہ رائے قائم کرنے میں ناکام رہے اور انہوں نے ریفرنس میں قانونی سوالات پر تیسرے فریق سے رائے نہیں لی اور اس میں قانی اور طریقہ کار کے نقائص ہیں سے متعلق آبزروینشز سے مطمئن ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں