نااہل آدمی کو حکومت میں بٹھانے کا فیصلہ ادارے کا نہیں چند کرداروں کا تھا، نواز شریف

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2020
—فوٹو:اکرام اللہ نسیم ٹوئٹر
—فوٹو:اکرام اللہ نسیم ٹوئٹر
—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز
مریم نواز نے جلسے سے قبل پی ڈی ایم رہنماؤں سے ملاقات کی—فوٹو: ٹوئٹر
مریم نواز نے جلسے سے قبل پی ڈی ایم رہنماؤں سے ملاقات کی—فوٹو: ٹوئٹر
جلسے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز
جلسے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں—فوٹو: ڈان نیوز
جلسے سے قبل پی ڈی ایم رہنماؤں نے ملاقات بھی کی—فوٹو: ٹوئٹر
جلسے سے قبل پی ڈی ایم رہنماؤں نے ملاقات بھی کی—فوٹو: ٹوئٹر

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ چند لوگوں کو اپنے مفادات عوام کی خوش حالی سے زیادہ عزیز ہیں اور اداروں کے سربراہان کو اس حکومت کی تمام ناکامیوں کا حساب دینا ہے۔

کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے تیسرے جلسے سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب میں مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ آج کے جلسے سے واضح ہوگیا کہ اب کوئی ووٹ کی عزت کو پامال نہیں کرسکے گا اور ووٹ کی عزت کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میر حاصل بزنجو کی یاد آرہی ہے جو اپنے والد کی طرح بہادر تھے اور ہر فورم پر خطروں سے بے نیاز ہو کر سچی بات کرتے تھے۔

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ محسن داوڑ اور ندیم اصغر کو کوئٹہ ایئرپورٹ سے سیکیورٹی کے نام پر گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے ہم سب اس عمل کی سختی سے مذمت کرتے ہیں، سیکیورٹی کے نام پر اس طرح کے اقدامات پہلے بھی ہماری ریاست کو بدنام کرتے رہے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان پر جو گزرتی رہی ہے وہ نہایت افسوس ناک کہانی ہے، بلوچستان میں مری، مینگل، بگٹی، بزنجو اور دیگر قبائل کے ساتھ جو سلوک ہوا اور اب تک ہورہا ہے وہ ہم سب کے لیے انتہائی دکھ اور رنج کا باعث ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ غداری کا لیبل ہر اس شخص کے ماتھے پر چسپاں کیا گیا جس نے سر اٹھا کر بات کرنے کی کوشش کی، جس نے ظلم وستم کے خلاف احتجاج کیا اور جس نے آزاد قوم کا آزاد شہری ہونے کا حوصلہ کیا، وہ صرف اس لیے باغی اور غدار قرار پائے کہ انہوں نے اپنے آئینی حقوق کے لیے آواز اٹھائی، کئی قتل ہوئے اور کئی ہمیشہ کے لیے لاپتا کردیے گئے، ان کے قبروں تک کا نام و نشان تک نہیں ہے، گم شدہ افراد کا مسئلہ بھی موجود ہے، ہمارے ہم وطن آج بھی اٹھائے جارہے ہیں کچھ پتا نہیں کہ انہیں آسمان کھا گیا کہ زمین نگل گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں جب بھی لاپتا افراد کی ماؤں اور بہنوں کو دیکھتا ہوں تو افسردہ ہوتا ہوں، ہم کب تک اپنے لوگوں کے خلاف استعمال ہوتے رہیں گے۔

نواز شریف نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ کن مسائل کا شکار ہیں اور انہیں روزمرہ زندگی میں کس طرح کی مشکلات پیش آرہی ہیں اس کا بخوبی علم ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ملک میں ادویات اور دیگر اشیا مہنگی ہوچکی ہیں، صنعتیں اور معیشت تباہ ہوچکی ہے، کیوں چینی اور گندم مہنگی ہوئی اور مہنگائی بے قابو ہوگئی اور کھاتے پیتے لوگ غربت کا شکار ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا روپیہ آج نیپالی اور افغانستان کی کرنسی سے بھی نیچے گر گیا ہے، کیونکہ شاہراہیں اور موٹرویز بند ہوئیں، پاکستان کیوں دنیا میں تنہا ہوگیا اور کیوں بھارت کو کشمیر ہڑپ کرنے کی ہمت ہوئی؟

نواز شریف نے کہا کہ اس کا سیدھا جواب ہے کہ چند لوگوں کو اپنے اختیارات عوام کی خوش حالی سے زیادہ عزیز ہیں، نواز شریف ان لوگوں کو اچھا نہیں لگتا کیونکہ وہ عوام کا منتخب ہے اور ووٹ اور آئین پر سمجھوتہ نہیں کرتا، ڈکٹیشن نہیں لیتا اس لیے فیصلہ ہوا کہ نواز شریف کو نکالو۔

ان کا کہنا تھا کہ خزانے کے اربوں ڈبونے کے باوجود نواز شریف پر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہ ہوئی تو کہا کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں عمر بھر کے لیے نااہل کردو اور مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے بھی نکال دو۔

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ نواز شریف، ان کے بھائی شہباز شریف، بیٹی مریم نواز، حمزہ شہباز، سارے خاندان، ساتھیوں اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دو اور نواز شریف کو نشان عبرت بناتے بناتے ان لوگوں نے سب کو نشان عبرت بنادیا۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے انہوں نے 2018 کے انتخابات سے قبل میں لوگوں کو زبردستی پی ٹی آئی میں شامل کرادیا پھر انہیں جیتوانے کے لیے پولنگ کے دن ڈراما رچایا اور اسٹیشنز پر قبضہ جمایا، آر ٹی ایس بند کرکے رات کی تاریکی میں اپنے من پسند امیدواروں کو جیتوا کر 4 دن تک نتائج جاری کرتے رہے اور تاریخ کی بدترین دھاندلی کرکے انہوں نے نالائق ترین شخص کو وزیراعظم کے منصب پر بٹھایا تاکہ ان جرائم پر کوئی سوال نہ اٹھائے بلکہ ان کے اشاروں پر کرتب دکھاتا رہے گا اور یہاں سے ملک کی تباہی کا سلسلہ شروع ہوا جو بڑھتا ہی چلتا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کراچی کے عظیم الشان جلسے سے گھبرا کر یہ لوگ ہوٹل کے اس کمرے کا دروازہ توڑ کر داخل ہوگئے جس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر ٹھہرے ہوئے تھے، کیا یہ لوگ اس پستی میں گر گئے ہیں کہ نہ کوئی اخلاق، تہذیب اور روایات باقی نہیں رہیں، یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'مجھے حیرت ہے ان لوگوں پر جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کی باتیں کرتے ہیں، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کی بات کرتے ہوئے لیکن اب بھی اس حکومت کا حصہ ہیں، جس نے یہ سیاہ ترین حرکت کی ہے'۔

نواز شریف نے کہا کہ 'کراچی کے اس واقعے نے میری بات کو عملی طور پر سچ ثابت کردیا ہے کہ یہاں ریاست کے اوپر ایک اور ریاست مسلط ہوچکی ہے اور اندھی طاقت کے غیر قانونی شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، جب تک یہ غیر قانونی شکنجہ رہے گا حالات بہتر نہیں ہوسکتے'۔

انہوں نے کہا کہ 'سندھ وفاق کی اہم اکائی اور خود مختار صوبہ ہے، وہاں ایک منتخب حکومت اور وزیراعلیٰ موجود ہے لیکن کسی کو نہیں معلوم کہ کس نے آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کو اغوا کیا اور سیکٹر کمانڈر کون ہے کہ وہ کس کی طاقت سے ایف آئی آر کاٹتا ہے اور کس کے حکم پر چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا جاتا ہے، اگر صوبے کے وزیراعلیٰ کو اس کا علم نہیں تو پھر اس سے بڑا حکمران کون ہے جو اس طرح کے حکم دیتا ہے اور من مانی کرتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پی ڈی ایم اس غیر آئینی کاموں، ریاست کے اوپر ریاست کی بیماری کے خلاف اٹھی ہے، اس نے پاکستان کو اندر اور باہر سے کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے، یہ تحریک کسی ادارے کے خلاف نہیں بلکہ پاک فوج کے مقدس ادارے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے والے کرداروں کے خلاف ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'فوج کے نیچے سے اوپر تک فوج کے بہادر فرزندوں کو ان لوگوں کے عزائم کا پتا نہیں ہوتا، وہ ملک کی حفاظت میں دن رات ایک کرتے ہیں لیکن ان سے معصومیت اور انجانے میں ایسے کام لیے جاتے ہیں جس کے نتائج قوم کو بڑے نقصانات کی شکل میں بھگتنے پڑتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'چند لوگ گھناؤنے مقاصد کے لیے آئین اور قانون توڑتے ہیں، ملک اور قوم کو نقصان پہنچاتے ہیں اور خود کو بچانے کے لیے نام فوج کا استعمال کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں فوج کا اس سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہوتا اس کے باجود بدنامی ادارے کی ہوتی ہے، اس لیے میں نام لے کر ایسے کرداروں کو بے نقاب کرتا ہوں تاکہ ان کے سیاہ کاموں کا دھبہ میرے ملک کے اداروں اور میری فوج کی وردی پر نہ لگے'۔

نواز شریف نے کہا کہ 'ہماری تاریخ کے المیوں میں چند کردار ہی تھے جو اپنے مفادات اور مقاصد کے لیے فوج کی بدنامی کا باعث بنے، کارگل میں ہمارے سیکڑوں جاں بازوں کو شہید کروانے، دنیا بھر میں پاکستان کو رسوا کرنے کا فیصلہ فوج کا نہیں، چبند جرنیلوں کا تھا، انہوں ملک و قوم کو ایسی جنگ میں جھونک دیا تھا جس سے کوئی فائدہ ہو ہی نہیں سکتا تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وہ لمحہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھا جب مجھے پتا چلا کہ ہمارے بہادر سپاہی یہ دہائی دیتے رہے کہ ان دور افتادہ چوٹیوں پر خوراک نہیں تو اسلحہ تو پہنچائیں، ان فوجیوں کو اس جنگ کے پیچھے عزائم کا پتا ہی نہیں تھا، جنہیں ملک و قوم کی سربلندی کے لیے محاذ پر بھیجا گیا تھا اور وہ جانوں کے نذرانے دیتے رہے لیکن ملک و قوم کو کیا حاصل ہوا'۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ 'کارگل میں وہی افراد تھے جنہوں نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور سزاؤں سے بچنے کے لیے 12 اکتوبر 1999 کو بغاوت کی اور مارشل لا نافذ کیا، جنرل پرویز مشرف اور ان کے چند ساتھی تھے جنہوں نے فوج کے ادارے کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا بلکہ بدنام کیا'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں ان لوگوں کو بری الذمہ قرار نہیں دوں گا جنہوں نے خلاف قانون احکامات کی تعمیل کی، وزیراعظم ہاؤس کے جنگلے توڑے اور منتخب وزیراعظم کو گرفتار کرکے ناجائز فوجی حکومت کی راہ ہموار کی، غیر قانونی حکم کی تعمیل کرکے وہ بھی اتنے ہی بڑے مجرم ثابت ہوئے جتنا کہ حکم دینے والے'۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ 'انہی لوگوں نے محب وطن اکبر بگٹی کو شہید کیا، انہی لوگوں کو محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی شہادت سے قبل لکھے گئے خط میں اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا، انہی لوگوں نے بلوچستان اور سندھ میں ہمارے فضائی اڈے غیروں کے ہاتھوں گروی رکھے جہاں سے ڈرون اڑتے تھے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انہی لوگوں نے 12 مئی کراچی اور اسلام آباد میں لال مسجد جیسے قتل عام کروائے، ہمارے غیرت مند بلوچ بہنوں اور بھائیوں کی محرومی کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کئی لوگوں نے ذاتی مفادات اٹھائے اور پرویز مشرف کے ذاتی اکاؤنٹس میں اربوں روپے پڑے ہوئے ہیں اور اس کے ثبوت بھی موجود ہیں لیکن نیب یا عمران خان کسی میں جرات نہیں کوئی کارروائی عمل لائی جائے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اسی طرح ہماری منتخب حکومت کے خلاف جال بھنے، انتخابات میں دھاندلی کروائی اور ایک نااہل شخص کو ملک پر مسلط کرنے کا فیصلہ آدمی کو حکومت میں بٹھانے کا فیصلہ فوج کا نہیں تھا بلکہ چند کرداروں کا تھا اس لیے میں ان کرداروں نام لیتا ہوں تاکہ تباہی و بربادی کے الزامات کی چھینٹیں میری فوج کے جوانوں اور افسروں کی وردی پر نہ پڑیں، آج تمام سوالوں کے جواب فوج کو نہیں جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کو دینے ہیں'۔

نواز شریف نے کہا کہ 'جنرل باجوہ صاحب آپ کو 2018 کے انتخابات میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی اور عوام کے مینڈیٹ کی چوری کا حساب دینا ہے، جنرل باجوہ صاحب آپ کو ارکان پارلیمنٹ کی ہارس ٹریڈنگ کا حساب دینا ہے، آپ کو آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے عمران نیازی کو عوامی مینڈیٹ کے خلاف وزیراعظم بنانے کا حساب دینا ہے'۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'آپ کو اس حکومت کی تمام ناکامیوں کا حساب دینا ہے اور آپ اس قوم کو مہنگائی، غربت اور فاقہ کشی کی طرف دھکیلنے کا بھی حساب دینا ہے'۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ 'جنرل فیض صاحب آپ کو جواب دینا ہے کہ آپ نے کیوں ایک حاضر سروس جج کے گھر جا کر ان پر آئین اور قانون کے خلاف فیصلہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، کیوں آپ نے انہیں وقت سے پہلے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی پیش کش کی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کیوں آپ نے نواز شریف اور نواز شریف کی بیٹی کو الیکشن ہوجانے تک جیل میں رکھنے کی درخواست کی، آپ کی وہ کون سی دو سال کی محنت تھی جو نواز شریف کو رہا کرنے کی صورت میں ضائع ہوجانے کا اندیشہ تھا، آپ نے کہا تھا کہ اگر نواز شریف اور مریم نواز کو رہا کیا تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہوجائے گی'۔

انہوں نے کہا کہ 'آپ نے سیاست میں دخل نہ دینے کا حلف اٹھایا تھا کیوں اپنے حلف کی خلاف ورزی کی، کیا فیض آباد دھرنا کیس آپ کے خلاف چارج شیٹ نہیں، کیا سپریم کورٹ نے کارروائی کا حکم نہیں دیا، اس کے باوجود آپ کی نہ صرف لیفٹیننٹ جنرل ترقی ہوئی بلکہ آپ کو آئی ایس آئی کا عظیم الشان منصب بھی عطا ہوا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک ریفرنس دائر ہوا تاکہ نظر ثانی کی درخواست سن نہ سکیں'۔

نواز شریف نے کہا کہ 'اگر یہی وقت پیشہ ورانہ دفاعی امور پر صرف کیا ہوتا تو ہمارے کشمیری بہن بھائی کبھی ان مسائل سے دوچار نہ ہوتے، جن سے آج وہ دوچار ہیں'۔

انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرکے کہا کہ 'عمران خان صاحب آپ سیاست میں نابالغ ہیں اور کہتا ہوں کہ ہمارا مقابلہ آپ کے ساتھ نہیں، آپ کو لانے والوں کے ساتھ ہے، لیکن یہ مت سوچنا کہ تم بچ جاؤ گے، ثاقب نثار کا این آر او تمہیں نہیں بچائے گا، تم جس کے پیچھے چاہے چھپو، فارن فنڈنگ کیس میں تمھاری بد عنوانی نہ صرف کھل کر رہے گی بلکہ تمہیں جیل بھیجے گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تمہیں چینی اور آتے کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کے ایک پیسے کا حساب دینا ہوگا، زمان پارک میں کروڑوں روپے کی نئی تعمیر کا حساب دینا ہوگا، بنی گالہ کی منی ٹریل دینی ہوگی، دوسروں پر کیچڑ اچھالنا تمہیں احتساب سے نہیں بچاسکے گا، ٹی وی پر بھڑکیں مارنا اور دھمکیاں دینا تمہیں نہیں بچائے سکے گا'۔

نواز شریف نے کہا کہ 'میرا فوجی جوانوں اور افسروں کو پیغام ہے کہ یہ آپ کا اپنا ملک ہے، جس کے لیے آپ جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے آپ نے جہاں اس کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہے وہی اتنے ہی اہم اس کے آئین کی تابعداری کا حلف ہے، جہاں آئین اور قانون شکنی شروع ہوجاتی ہے وہاں ظلم کا دور شروع ہوجاتا ہے، جب آپ کسی فرد واحد یا مفاد پرست ٹولے کے لیے آئین توڑنے کے مرتکب ہوتے ہیں وہاں آپ خود اپنی قوم اور آئین شکنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہوتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنے حلف کی پاسداری کیجیے اور خود کو متنازع ہونے بچائیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میرا دوسرا پیغام سول سرونٹس کے نام ہے زمانہ بدل رہا ہے، کسی آئین اور قانون توڑ کر نکلنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، سندھ پولیس کے افسران نے نہ صڑف چند افراد کے خلاف احتجاج کرکے ان کے عزائم پورے نہیں ہونے دیے بلکہ عزت بھی کمائی، سندھ پولیس افسر صاحبان کو سلام پیش کرتا ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آپ کو بلا خوف اپنی ذمہ داریاں قانون کے مطابق ادا کرنی چاہیے، میں سول سروس سے گزارش کررہا ہوں کہ کسی دباؤ میں آئے بغیر امور انجام دینے چاہئیں'۔

عوام کے نام پیغام میں نواز شریف نے کہا کہ 'پاکستانی فوج آپ کی اپنی فوج ہے، انہیں عزت اور محبت دیجیے لیکن جب معاملہ آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی کا ہو تو پھر کوئی سمجھوتہ نہ کریں، پرامن احتجاج آپ کا آئینی حق ہے جس سے آپ کو کوئی محروم نہیں کرسکتا'۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ 'آزادی اظہار آپ کا آئینی حق ہے جو آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا، ووٹ اور حکومت سازی آپ کا حق ہے اور جو اس کو چھین لے وہ آپ کا حال اور مستقبل آپ سے چھیننے کے مرتکب ہوتا ہے، وہ آمر، غاصب اور آئین شکن ہے، آپ اپنے حق کواستعمال کیجیے، کسی مفاد پرست ٹولے یا مٹھی بھر لوگوں کو اپنی آنے والی نسلوں سے کھلواڑ کرنے کی اجازت مت دیجیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر آج آپ نے حقوق حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تو پھر آپ اپنے حالات سنوار دیں گے، اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہوگا'۔

نواز شریف نے کہا کہ عمران خان کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کو انجام تک پہنچانے کا وقت آگیا ہے اور جن لوگوں نے آئین اور قانون سے کھلواڑ کیے جبکہ عوام کو اس حال تک پہنچادیا ہے، عوام کو اس جدوجہد میں پی ڈی ایم کا ساتھ دینا ہوگا۔

گستاخانہ خاکوں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے، مولانا فضل الرحمٰن

پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ گفتگو سے پہلے ایک قرار داد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ فرانس میں فرانسیسی صدر کے حکم پر گستاخانہ خاکے عام دیواروں پر چسپاں کیے گئے ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فرانس اور ڈنمارک نے بڑا ظلم کیا ہے، ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام ایک امن پسند دین ہے لیکن آپ کے توہین آمیز اقدامات شدت کی طرف دھکیل رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے ناپاک اقدامات فوری طور پر روک دیے جائیں، یورپ کی ایک عدالت نے اس کو اظہار آزادی کہنے سے مترادف قرار دیا اور اس کو جرم قرار دیا ہے تو پھر حکمرانوں کی سطح پر اس طرح کام ہوں گے تو پھر ردعمل آئے گا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں کراچی میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ساتھ ہونے والے واقعے کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور اس اقدام پر حکمرانوں کو چلو بھر پانی ڈوب مرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور بلاول بھٹو نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کو خوش آمدید کہتا ہوں، دو دن ہوئے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس نام نہاد کابینہ میں بنایا گیا اور ایک جعلی صدر کے پاس بھیج دیا گیا اور عدالت میں پیش کیا گیا جہاں طویل سماعتوں کے بعد اس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔

'سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہمارے مؤقف کو تقویت ملی ہے'

انہوں نے کہا کہ اس دنیا میں کچھ اقدار موجود ہیں تو عدالت کے فیصلے کے بعد انہیں حکومت کرنے کا اخلاقی جواز بھی نہیں رہا لیکن کس بنیاد پر ایک شخص وزارت عظمیٰ اور صدارت کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمارا مؤقف تھا کہ یہ حکومت جعلی ہے اور اب ہمارے مؤقف کو مزید تقویت ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج بلوچستان کی سرزمین پر گفتگو کر رہے ہیں، 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیارات دیے گئے اور کوئی مائی کا لعل سوچے بھی نہیں کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق غصب کریں گے، ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے، بلوچستان اور سندھ کے جزائر پر قبضے کی اجازت نہیں دیں اور نہ کسی نادیدہ قوت کو عوام کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تباہ حال معیشت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ہمارا اتحاد 5 سال مکمل کرکے آخری بجٹ دے رہا تھا تو اگلے سال کا تخمینہ 5 فیصد رکھا تھا لیکن ان نالائقوں نے ایک سال میں 1.8 فیصد پر لے آئے۔

انہوں نے کہ گزشتہ برس آزادی مارچ میں جس طرح بلوچستان نے ساتھ دیا اس پر میں شکرگزار ہوں، اس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ ان حکمرانوں کو وقت دینا تباہی ہوگی، آج کی دنیا میں ریاستوں کی بقا کا دار و مدار معیشت پر ہے، روس کی مثال سب کے سامنے ہے حالانکہ دفاعی لحاظ سے مضبوط تھا لیکن معیشت تباہ ہوئی تو واپس روس بن گیا۔

پی ڈی ایم کے صدر نے کہا کہ ہم نے پچھلی حکومت میں سی پیک اور بڑے منصوبے دیے لیکن موجودہ حکومت نے نیا ایجنڈا دیا اور کہا کہ ہم ایسے بڑے منصوبے نہیں دے سکتے ہیں اور مرغی، انڈے اور کٹے جیسے منصوبے پیش کردیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب افغانستان بھی بات کرنے کو تیار نہیں لیکن ایک وقت تھا کہ ایران سے گیس لائن کی بات ہو رہی تھی جبکہ اب ایران بھی بھارت کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور چین بھی ناراض ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا محور کشمیر رہا ہے۔

'آزاد کشمیر کے وزیراعظم پر غداری کا مقدمہ درج ہوا تو بھارت نے خوشی منائی'

انہوں نے کہا کہ کیا عمران خان نے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا نہیں دیا تھا؟ انہوں نے دعا کی کہ اللہ، بھارت میں مودی جی کی حکومت آئے، جب بھارت نے کشمیر کو ختم کیا تو گھر میں خاموش بیٹھے رہے، ہم کشمیریوں کو جسم کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن یہ تاثر دینا کہ پاکستان کا صوبہ بنائیں لیکن اقوام متحدہ میں کشمیر کے نقشے پیش کیے تھے اس میں آل جموں و کشمیر میں گلگت بلتستان کو پیش کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج اس ایک حصے پر ہم قبضہ کریں اور دوسرے پر وہ قبضہ کریں تو پاکستان کے مؤقف کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، ہمیں کہتے ہیں اے پی سی کی وجہ سے بھارت خوش ہوتا ہے، بھارت نے اس وقت خوشی منائی جب اس حکومت نے آزاد کشمیر کے وزیراعظم پر غداری کا مقدمہ درج کیا، اور یہ پیغام سرحد پار کشمیریوں اور بھارت کو دے رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے کشمیریوں کے خون پر سیاست کی، ان کے خون کو بیچا، کشمیری بچوں اور خواتین کے خون پر سیاست کی اور اس طرح کی پالیسی سے ہمارے مؤقف کا کیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جو حشر پشاور میں بی آر ٹی کا ہوا ہے وہ حشر پورے ملک میں سی پیک کا ہوا ہے بلکہ پاکستان کا ہوا ہے،بات بڑی واضح ہے کہ ہم پاکستان کو ایک ریاست کے طور تسلیم ہی نہیں کرتے بلکہ ہم بار بار اس سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں اور ایسے حالات میں جب ملک معیشت تباہ ہوچکی ہے اور وہ تباہی ریاست کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے تو ان حالات میں اب ہمارا میدان میں آنا پاکستان کی بقا اور اس کی حفاظت کے لیے ہوسکتا ہے اور کوئی مقصد نہیں ہوسکتا۔

'ادارے اپنی غلطی تسلیم کریں، ہم ان کو اپنی آنکھوں پر بٹھانے کو تیار ہیں'

پی ڈی ایم کے صدر نے کہا کہ ہم اداروں کے دشمن نہیں، ادارے ملک کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں، ہم اداروں اور اداروں کے ذمہ داران کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر وہ پاکستان پر مارشل لا مسلط کرتے ہیں یا ایک جعلی حکومت کی پشت پناہی کرتے ہیں تو پھر ان سے گلہ کرنا، ان سے شکایت کرنا اور ان سے احتجاج کرنا ہمارا حق بن جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری اسٹبلشمنٹ آج بھی جعلی حکومت کی پشت پناہی سے دستبردار ہوجائے، آج بھی قوم کے سامنے معذرت کرلے کہ ہم نے انتخابات میں غلط کیا تھا، ہم نے قوم کا مینڈیٹ تباہ کیا تھا تو ہم آج بھی ان کو اپنی آنکھوں میں بٹھانے کو تیار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عجیب بات ہے کہ میں جرم کروں تو میں پاکستان کا دشمن ٹھہروں، سزائے موت کا حق دار بنوں اور یہ پاکستان کے ایسے مالک عوام کو جانور سمجھیں اور وہ یہ سمجھیں ان جانوروں کے سامنے جو چارہ ڈالیں گے وہ قبول کریں گے تو میں علی الاعلان کہتا ہوں طاقت ور سے طاقت ور قوت کی اس حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں کہ وہ عوام کو جانور سمجھیں اور ایسے چارہ ڈالیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایسی حکمرانی تسلیم کرو اور ان کی عزت کرو تو ہمیں تسلیم نہیں کیونکہ وہ اس قابل نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ این آر او ہماری ضرورت نہیں، اب این آر او تمھاری ضرورت ہے، کہنے لگے ایک کروڑ نوکریاں دوں گا اور اس طرح دھوکا دے کر نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چرسیوں اور بھنگیوں کی حکومت نہیں چاہیے، ہمیں شریف اور سنجیدہ لوگوں کی حکومت چاہیے، مجھے پتہ ہے کوئٹہ کے کن کن علاقوں میں لوگوں کو روکا گیا ہے، اس جلسے کے برابر لوگ ہیں، میں ان سے بھی مخاطب ہوں وہ بھی ہمارے جلسے کے شرکا ہیں،اس سے اندازہ لگایے کہ ہم پر آسانی حکومت نہیں کی جاسکتی، میں آپ کی حکومت کا انکار کرتا ہوں، میں نے پہلے دن آپ کی حکومت تسلیم نہیں کی اور آج بھی اس پر ڈٹا ہوا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا جو اپنے آپ کو آقا کہتا ہے، ہیلری کلینٹن چند روز قبل ڈیپ اسٹیٹ کا پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کہا کہ جس ملک میں فوج اور اس کی جاسوسی ایجنسی کی حکومت ہو اور اگر انہیں چیلنج کیا جائے تو پھر لوگوں پکڑتے ہیں، لاپتہ کرتے ہیں اور قتل کرتے ہیں، کوئی عدالت ان کے سامنے نہیں ہوتی جیسے کہ پاکستان۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ میں نہیں کہہ رہا وہ آقا آپ کو خود کہہ رہا ہے، جس کا خاوند دو مرتبہ امریکا کا صدر رہ چکا ہے اور خود صدارت کی امیدوار رہ چکی ہے، کوئی معمولی لوگوں نے نہیں کہا، ہمیں اپنا چہرے ذرا آئینے میں دیکھ لینا چاہیے اور ہمیں پاکستانی قوم کی ایسی حالت قبول نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار مملکت دیکھنا چاہتا ہے، ہمارے آبا و اجداد نے اگر ہمیں درس دیا ہے تو آزادی کا درس دیا ہے، اگر مجھے محسوس ہوجاتا ہے کہ پاکستان ایک غلام مملکت ہے تو بخدا اس وطن عزیز کے لیے آزادی کی جہاد لڑوں گا۔

'میرے نزدیک فوج کی حیثیت آنکھوں کی پلکوں کی طرح ہے'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ سفر جاری ہے اور جاری رہے گا، ظلم سے نکلنا چاہتے ہوتو ہمت کرو آگے بڑھو، پاکستان کے جوانوں اور بزرگوں، ماؤں اور بہنوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو آزاد اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہو تو جدوجہد کرنا پڑے گی، گھر میں بیٹھے بیٹھے حالات نہیں بدلتے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری فوج ہمیں عزیز ہے، میرے نزدیک فوج کی حیثیت آنکھوں کی پلکیں کی طرح ہیں، پلکیں آنکھوں کی سرحدات کی حفاظت کرتی ہیں اور یہ صرف سرحدات پر رہتی ہیں، لیکن جب کوئی بال آنکھ میں آئے تو آنکھ بے قرار ہوتی ہے، اشک بہاتی ہے، اشک بہاتے بہاتے وہ بال نکل جائے ورنہ اس بال کو نکالنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'طاقت ور لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری محبت اور ہماری وفاداریوں کا مذاق مت اڑاؤ، قوم کو اس حد تک مت لے جاؤ کہ واپس آنا مشکل ہو جائے، ہم نے اس ملک کو ایک رکھنا ہے، عوام کے حقوق کی بات کرنی، چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بات کرنی، دنیا میں پاکستان کی عزت و وقار کو اونچا کرنا ہے، اسی نقطہ نظر کو لے کر ہمت و جرات سے آگے بڑھنا ہے'۔

بلوچستان کے نوجوانوں کو غائب کردیا جاتا ہے، مریم نواز

مریم نواز نے کہا کہ دنیا کے اربوں مسلمان جب ربیع الاول کا مہینہ منارہے تو ایسے میں فرانس میں گستاخانہ خاکے بنائے گئے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں، اس سے ہماری دلوں کو دکھ پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طلبہ 12 روز سڑکوں پر احتجاج کررہے تھے لیکن کسی نے اس پر آواز نہیں اٹھائی حالانکہ سوئی سے نکلنے والی گیس سے پورے پاکستان کو ملتی ہے لیکن چند کروڑوں کی اسکالر شپ کے لیے بلوچستان کے طلبہ کو نہیں دی گئی۔

مریم نواز نے کہا کہ بلوچستان میں جوانوں کو اٹھالیا جاتا ہے، جب میں اسٹیج پر آرہی تھی ایک بچی آئی جس کا نام آسیہ قمبرانی ہے اور انہوں نے کہا کہ ان کے تین بھائیوں کو لاپتہ کردیا گیا ہے اور وہ والدین کے واحد کفیل تھے۔

انہوں نےکہا کہ یہ انتہائی شرم ناک واقعہ ہے، میں اپنے والدہ کی وفات اور والد کو جیل بھیجنے پر نہیں روئی تھی لیکن آج اس واقعے پر میں روئی ہوں۔

مریم نواز نے کہا کہ آج جب میں یہاں خطاب کررہی ہوں تو قائد اعظم کے اسٹاف کالج میں خطاب یاد آتا ہے کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ پالیسیاں بنانا تمھارا کام نہیں، یہ کام عوامی نمائندوں کام ہے اور ان کو کرنے دو، کیا 72 برسوں میں قائد اعظم کی اس بات پر عمل ہوا، کیا سیاست پر مداخلت بند ہوئی، کیا عوامی نمائندوں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ‘قائد اعظم کی تقریر کومٹی میں ملادیا گیا، ہمارا مطالبہ ہے ووٹ کو عزت دو، اپنے حلف اور آئین کی پاسداری کرو، سیاست سے دور ہوجائے، ریاست کے اوپر ریاست مت بناؤ، عوام کے مینڈیٹ کو مت چھینو’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بلوچستان کی آج کی حالت اس لیے ہوئی ہے کیونکہ ووٹ کو عزت نہیں دی گئی، یہاں پر حاکم کسی اور کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، وہ عوام کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتا، اگر ہم نے اس کو نہیں روکا تو خدا نخواستہ ہماری آزادی کا وجود خطرے میں پڑجائے گا’۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 17 ججوں میں ایک جج قاضی فائز عیسیٰ ہے اور سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ان کے خلاف بددیانتی پر مبنی ریفرنس بنایا گیا۔

مریم نواز نے کہا کہ الف لیلیٰ کا ایک کردار عاصم سلیم باجوہ بھی یاد آرہا ہے جو یہاں حاکم رہا، ہم ان سے پوچھتے ہیں نوکری پیشہ ہونے کے باوجود اربوں کے اثاثے کہاں سے آئے، پیز کہاں سے آئے، تمھارے اور تمھارے خاندان کے اربوں کہاں سے آئی، ایس ای سی پی کے دستاویزات پر رد وبدل کی اور جعلی سازی کیوں کی تو وہ چپ ہے لیکن سلیکٹڈ عمران خان بھی نہیں پوچھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے خلاف کوئی نیب، ایف آئی اے اور ادارے خاموش ہیں لیکن ایسے نہیں چلے گا۔

مریم نواز نے کہا کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا وقت آگیا ہے، اب یہاں غداری کے سرٹیفیکیٹ نہیں بٹیں گے، ماؤں کے سپوت، بہنوں کے بھائی لاپتہ نہیں ہوگا، کٹھ پتلیوں کا کھیل اب ختم ہونے والا ہے۔

پی پی پی ایک قدم آگے بڑھ کر پی ڈی ایم کا ساتھ دے گی، بلاول

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ کوئٹہ کے جلسے میں دکھا دیا کہ پی ڈی ایم ایک طرف ہے اور سلیکٹڈ اور اس کے ساتھی ایک طرف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی پی پی جمہوریت کی بحالی سے پیچھے ہٹی تھی اور نہ ہم پی ڈی ایم سے پیچھے ہٹیں گے، بڑی مشکل سے اس کی بنیاد اے پی سی میں رکھی گئی، ہم آگے بڑھنے والے ہیں لیکن پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے، گیس اور سونے کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود قسمت میں بدحالی لکھی ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام عزت کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں، عوام غربت، آزادی، بولنے اور سانس لینے کی آزادی چاہتے ہیں، یہ کیسی آزادی ہے جہاں سیاست، صحافت، عدالت اور عوام آزاد نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم سب ایک اسٹیج پر ہیں اور اب باقیوں کو بھی عوام کے اسٹیج پر آنا پڑے گا ورنہ ان سب کو گھر جانا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ آمریت نے بلوچستان کو لاشیں دیں، مشرف نے اپنے شہریوں کو دوسروں کو بیچا، غداری کا سرٹیفکیٹ دینے والا اپنے شہریوں کو بیچ رہا تھا، اب مشرف بھگوڑا سرٹیفائیڈ غدار بن چکا ہے۔

پرویز مشرف پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس نے اکبر بگٹی کو شہید کیا، بنظیر بھٹو کو شہید کیا لیکن آج تک اس سے کسی نے نہیں پوچھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انصاف پر مبنی این ایف سی دے کر تمام صوبوں کو ان کا حق دیا، آغاز حقوق بلوچستان دیا جس میں آئینی حقوق تھے لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا، جس میں سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے سیاسی مسئلے حل کرنے کا موقع ملا۔

انہوں نے کہا کہ گوادر اور گلگت بلتستان کی سرحدوں کے بٖغیر سی پیک نہیں ہوسکتا، سی پیک گیم چینجر کے طور آیا ہے تو ہمیں گوادر اور گلگت بلتستان کے عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، کیونکہ یہاں کے عوام کو شکایت ہے کہ انہیں اس منصوبے سے فائدہ نہیں پہنچایا جا رہا ہے۔

بلاول نے کہا کہ اگر سی پیک کو کامیاب بنانا ہے تو گوادر اور گلگت بلتستان کے عوام کو مواقع دینے ہوں گے، ہم نے تھر کول منصوبے میں 71 فیصد مقامی لوگ ہیں، 20 فیصد لوگ دیگر صوبوں کے لوگ جبکہ 9 فیصد دیگر لوگوں اور چند غیرملکیوں کو روزگار دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی ماڈل ہے جو سی پیک مقامی افراد سے جڑ جاتا ہے، اگر اس پر عمل کیا جاتا ہے تو سی پیک کامیاب ہوگا اور ترقی بھی ہوگی ورنہ خطرہ بھی ہوسکتا ہے، عمران خان سی پیک کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہا ہے، بلوچستان کے جزائر پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نہ صرف سی پیک کو ناکام بنانا چاہتا ہے بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی تباہ کر رہا ہے اور تاریخی مہنگائی دی ہے، غریب عوام کہاں جائیں گے، آج غریب عوام اس نااہل، نالائق اور سلیکٹڈ حکومت کا بوجھ اٹھا رہے ہیں، یہ مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ دنیا کے کسی ملک میں ایسی مثال ملتی ہے کہ ہر شہر سے عوام کو اغوا ہورہے ہیں، اس پر میڈیا بھی کچھ نہیں بول سکتا، نہ عدلیہ کچھ کرسکتی اور پارلیمان بھی کچھ نہیں کر پارہا، لاپتہ افراد کا مسئلہ ظلم ہے، اس ظلم کو ختم ہونا پڑے گا، عوام کو بنیادی حقوق دینا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ ظلم جاری رہا تو میرا نہیں خیال یہ ملک اس کو برداشت کر پائے گا، یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ وہی آدمی نیب کا سربراہ ہے جن کے نیب کے قید میں زیادہ لوگ فوت ہوچکے ہیں جو گوانتاموبے کے مقابلے میں زیادہ تعداد ہے، کیا یہ آدمی لاپتہ افراد کے لیے کام کرے گا۔

چیئرمین نیب کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس نے آصف زرداری کو اس کی بیٹیوں کو دکھ پہنچانے کے لیے گرفتار کرواتا ہے، یہ آدمی نواز شریف کو اس کی بیٹی کے سامنے گرفتار کرواتا ہے تاکہ ان کو دکھ پہنچے، عدلیہ نے نیب کو غیر آئینی ادارہ قرار دے دیا تو ہمیں کیسے لگے گا کہ جب وہی ادارہ وہی عدلیہ کہتا ہے کہ نیب میں مقدمات روزانہ کی بنیاد پر سننا چاہیے، امید ہے اگر سپریم کورٹ ایسا حکم نیب کو دے سکتی ہے تو جلد ہی ہماری سپریم کورٹ روزانہ کی بنیاد پر لاپتہ کیس بھی سنے گی۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اکبر بگٹی اور ذوالفقار بھٹو اور بینظیر بھٹو قتل کیس بھی روزانہ کی بنیاد پر سنے گی، امید ہے کہ آج کی سپریم کورٹ جمہوریت اور عوام کا ساتھ دے گی، ماضی میں ہماری عدلیہ نے آمریت کا ساتھ دیا ہے اب امید ہے عدلیہ انصاف کا ساتھ دیں گے اور ماضی میں جو غلطی کی گئی اب وہ نہیں دہرائی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان پورے پاکستان کو ٹائیگر فورس میں تبدیل کرنا چاہتا ہے لیکن ہمارے کارکن ایسا نہیں کرنے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا نے دیکھا مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کے ساتھ بدترین سلوک ہوا اور عمران خان سندھ پولیس کو بھی اپنی ٹائیگر فورس بنانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن سیلوٹ ہے سندھ پولیس کو جس نے عمران خان کی ٹائیگر فورس بننے سے انکار کیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ کل بھی جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے منتخب رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو کوئٹہ ایئرپورٹ پر گرفتار کیا گیا اور کوئٹہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی، کیا اس ملک میں ہمیں دوسرے صوبے میں داخل ہونے کے لیے ویزے کی ضرورت ہے، مجھے بھی انتخابی مہم کے لیے بلوچستان داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اے ایس ایف اور ایف سی کو بھی اپنی ٹائیگر فورس بنانا چاہتا ہے، یہ تو اپنی عدلیہ کو ٹائیگر فورس بنانے کی کوشش کررہا تھا، عمران خان فوج کو بھی ٹائیگر فورس بنانے کی کوشش کررہا تھا جبکہ یہ ادارے سب کے ادارے ہیں لیکن جب تک ہمارا دم ہے ہم ایسا نہیں کرنے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کا مطالبہ ہے کہ عوام ہمارا ساتھ دیں تاکہ پم پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو بچا سکیں، آپ کے حقوق اور آزادی بحال کرسکیں، میں جانتا ہوں کہ پورا پاکستان ایک طرف اور کٹھ پتلی دوسری طرف ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمارا راستہ نہیں روک سکتے ہم جلد ہی جمہوریت اور عوام کی آزادی بحال کردیں گے۔

بلوچستان پہلے کی طرح اب بھی جاگ رہا ہے، اخترمینگل

بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہم ان قوتوں کو پیغام دینا چاہتے کہ بلوچستان پہلے کی طرح اب بھی جاگ رہا ہے اور جب بلوچستان جاگتا ہے تو ان کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام نے ہمیشہ جممہوریت کا علم بلند رکھا ہے لیکن یہ اور بات ہے جمہوری ادوار میں ہمیں وہ حصہ نہیں ملا مگر جب گلستان کو لہو کی ضرورت پڑتی تو گردن ہماری کٹی۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کو انگریزوں نے منی لندن کہا تھا اور یہاں ہر رنگ و نسل کے لوگ آباد ہیں، ایک زمانے میں یہاں پھولوں، پھلوں اور صنوبر کی خوشبو آتی تھی، کوئٹہ کی شاہراہوں پر ان پھولوں کی خوشبو ہوتی تھی، بچوں اور بزرگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں اور گلیاں پیار محبت کے گیتوں سے گونجتے تھے لیکن اب یہاں بارود اور خون کی بو آتی ہے، یہ خون ہمارے بچوں کا خون ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں بہنے والا خون کسی اور کا نہیں بلکہ ہمارے بزرگوں اور آنے والی نسلوں کا خون ہے، آج یہاں لاشوں پر چیخ و پکار کرتی ہوئی مائیں نظر آئیں گے، یہاں وہ مائیں اور والد نظر آئیں گے جو 10 برسوں سے اپنے لخت جگرکو ڈھونڈ رہے ہیں اور آہیں بھرتے ہوئے نظر آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں وہ بہنیں بھی نظر آئیں گے جن کے سروں پر ان کے بھائی نے چادر رکھا تھا لیکن حکمرانوں نے اس کے سر سے وہ دوپٹہ تک چھین لیا، یہاں خانہ بدوشوں کے ڈھیروں کے علاوہ موت کے ڈھیرے نظر آئیں گے۔

اس سے قبل کوئٹہ میں حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) تیسرا پاور شو ہوا اور اس سلسلے میں مرکزی قائدین مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز کے علاوہ دیگر قائدین نے بھی خطاب کیا۔

کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں منعقدہ پی ڈی ایم کے آج کے اس تیسرے جلسے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز و دیگر قائدین موجود رہے جہاں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا۔

خیال رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت مخالف تحریک کے سلسلے میں جلسوں کا باقاعدہ آغاز 16 اکتوبر کو پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہوا تھا، جس کے بعد 18 اکتوبر کو کراچی میں پی ڈی ایم نے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم ‘سیکیورٹی خطرات’ کے باعث کوئٹہ ریلی مؤخر کرے، بلوچستان حکومت

تاہم 16 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں ہونے والے جلسے میں نواز شریف نے خطاب کیا تھا اور حکومت، پاک فوج اور اداروں پر تنقید کی تھی، تاہم پیپلز پارٹی کی میزبانی میں منعقد ہونے والے 18 اکتوبر کے جلسے میں نواز شریف نے خطاب نہیں کیا تھا۔

کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے تیسرے جلسے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ بلوچستان حکومت نے دفعہ 144 کے تحت کوئٹہ میں ڈبل سواری پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

یہی نہیں بلکہ حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے اپوزیشن اتحاد پر زور بھی دیا تھا کہ نیکٹا کے جاری سیکیورٹی الرٹ کی بنیاد پر کوئٹہ کا جلسہ مؤخر کریں، تاہم پی ڈی ایم کی قیادت کا کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں کی کامیابی سے خوف زدہ ہے۔

دیگر رہنماؤں کے خطاب

حکومت مخالف پی ڈی ایم کے جلسے سے قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت، اپوزیشن کے جلسوں سے خوفزدہ ہے اور گوجرانوالہ جلسے کے بعد انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف غداری کے مقدمات درج کروائے۔

ساتھ ہی انہوں نے الزام لگایا کہ یہ (حکومت) کراچی میں اتنی خوفزدہ ہوگئی کہ مرکز نے صوبے پر حملے کردیا اور دستخط کے لیے آئی جی پولیس کو اغوا کرلیا۔

انہوں نے کہا کہ ’اس نااہل حکومت نے خود کو الگ تھلگ کرلیا ہے اور اس کی ہرپالیسی ناکام ہوگئی ہے اور مہنگائی کی وجہ سے ہر شخص کی زندگی مشکل ہوگئی ہے‘۔

ادھر جے یو آئی(ف) کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے دعویٰ کیا کہ جلسے کے لیے آنے والے شرکا کو روکا گیا جبکہ کارکنان نے اسی جگہ پر دھرنا شروع کردیا جہاں انہیں روکا گیا۔

جلسے سے عوامی نیشنل پارٹی کے نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد صفدر کے ساتھ کراچی اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی کوئٹہ آمد پر پیش آئے واقعات کی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا عمران خان کے لیے پیغام ہے کہ ’آپ نااہل اور ناکام ہیں‘۔

کوئٹہ میں موبائل سروس معطل

دوسری جانب کوئٹہ میں سیکیورٹی خدشات کے باعث موبائل سروس بھی معطل کردی گئی تھی۔

صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے بتایا تھا کہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر موبائل سروس کو معطل کیا گیا، اس پر سیاست نہ کی جائے، اس سے قبل بھی محرم الحرام و دیگر غیر سیاسی اجتماعات کے دوران بھی متعدد بار موبائل سروس معطل کی جاتی رہی ہے۔

انہوں نے لکھا کہ موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پرپابندی عائد کی گئی، ساتھ ہی انہوں نے پی ڈی ایم قیادت سے کہا کہ وہ اپنے کارکنوں کو تعاون کرنے کی تاکید کریں۔

جلسے سے قبل پی ڈی ایم قائدین کے بیانات

پی ڈی ایم کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا تھا کہ 25 اکتوبر کا کوئٹہ کا جلسہ مؤخر نہیں ہوگا کیونکہ حکومت بلوچستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ جلسے میں مکمل سیکیورٹی فراہم کرے۔

یہ بھی پڑھیں: تمام اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہے، مولانا فضل الرحمٰن

ان دونوں رہنماؤں نے بلوچستان کے علاقے خضدار اور کوئٹہ آمد کے موقع پر علیحدہ علیحدہ بیان میں کہا تھا کہ اگر انتظامیہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکتی تو اسے گھر چلے جانا چاہیے۔

مریم نواز نے کہا تھا کہ ’اگر کچھ ہوا تو صوبائی حکومت ذمہ دار ہوگی‘۔

الائنس کی رہنما کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نے وزیراعظم عمران خان کے آمرانہ رویے کو چیلنج کیا، وہ گوجرانوالہ اور کراچی کے بڑے جلسوں سے خوفزدہ ہوگئے ہیں اور 15 جنوری 2021 تک استعفیٰ دے سکتے ہیں۔

پی ڈی ایم کیا ہے؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والا 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو رواں ماہ سے شروع ہونے والے ’ایکشن پلان‘ کے تحت 3 مرحلے پر حکومت مخالف تحریک چلانے کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔

ایکشن پلان کے تحت پی ڈی ایم نے رواں ماہ سے ملک گیر عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہروں، دسمبر میں ریلیوں اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف ایک ’فیصلہ کن لانگ مارچ‘ کرنا ہے۔

مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے پہلے صدر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف سینئر نائب صدر ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اس کے سیکریٹری جنرل ہیں۔

اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اس اتحاد میں بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں