کیا یہ عام وٹامن کووڈ 19 کے سنگین خطرے سے بچاسکتا ہے؟

02 نومبر 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کیا جسم میں وٹامن ڈی کی صحت مند سطح نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار افراد کو آئی سی یو اور موت سے بچانے میں مدد دے سکتی ہے؟

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جاننے کے لیے متعدد ممالک کے سائنسدانوں کی جانب سے کام کیا جارہا ہے اور اب تک کی تحقیق نے دریافت کیا ہے کہ سورج سے جسم کو ملنے والے اس وٹامن کی کمی بیشی بیماری کی شدت پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

اسی طرح جن ممالک میں کووڈ 19 سے اموات کی شرح زیادہ ہے، وہاں وٹامن ڈی کی کمی کے شکار آبادی کم اموات والے ممالک سے زیادہ ہے۔

امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے بائیومیڈیکل انجنیئرنگ پروفیسر ویڈم بیکہم نے بتایا کہ اگرچہ تحقیقی رپورٹس میں اب تک وجہ اور اثرات کو دریافت یا ثابت نہیں کیا جاسکا، مگر اس خیال کو مضبوط کیا ہے کہ وٹامن ڈی کووڈ 19 کی پیچیدگیوں سے سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔

یہ پروفیسر مختلف ممالک میں وٹامن ڈی کی کمی اور اموات کی شرح کے درمیان تعلق پر تحقیق میں مصروف ہیں۔

وٹامن ڈی اور کووڈ 19 کے درمیان اب تک ہونے والی تحقیقی رپورٹس

کووڈ 19 کے 200 سے زائد ہسپتال میں زیرعلاج مریضوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 80 فیصد وٹامن ڈی کی کمی کے شکار تھے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وٹامن ڈی کے کمی کے شکار مریض کے خون میں ورم کا باعث بننے والے عناصر کی شرح بھی زیاادہ ہے۔

تاہم محققین وٹامن ڈی کی کمی اور بیماری کی شدت میں کوئی تعلق دریافت نہیں کرسکے۔

اسپین میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسم میں وٹامن ڈی کی شرح کووڈ 19 سے لوگوں کے ہسپتال میں داخلے پر اثرانداز ہوتی ہے۔

اس تحقیق میں 50 مریضوں کو وٹامن ڈی کا استعمال کرایا گیا تو ان میں سے صرف ایک کو آئی سی یو میں داخل ہونا پڑا جبکہ کوئی ہلاکت نہیں ہوئی، جبکہ 26 ایسے مریض جن کو یہ وٹامن استعمال نہیں کرایا گیا، ان میں سے 13 کو آئی سی یو میں داخل کرانا پڑا اور 2 ہلاک ہوگئے۔

دوسری جانب امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں ہسپتالوں میں زیرعلاج 235 کووڈ 19 کے مریضوں کے خون کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی گئی اور پھر ان کی حالت کا جائزہ لیا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ جن مریضوں کے جسم میں وٹامن ڈی کی سطح معمول پر تھی، ان میں کووڈ سے موت کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس کی مکمل تصدیق کے لیے ایک بڑی تحقیق کی ضرورت ہے۔

اور اس حوالے سے تحقیقی رپورٹس پر کام جاری ہے جیسے برطانیہ کی کوئین میری یونیورسٹی نے ایک تحقیق پر کام شروع کیا ہے جو 6 ماہ تک جاری رہے گی، جس میں 5 ہزار افراد کو شامل کیا جارہا ہے۔

تحقیق کے دوران دیکھاا جائے گا کہ وٹامن ڈی کے زیادہ ڈوز سے کووڈ 19 سمیت موسم سرما میں نظام تنفس کے امراض کا خطرہ کس حد تک کم ہوسکتا ہے۔

اسی طرح مزید 31 تحقیقات کا اندراج کلینکل ٹرائلز ڈاٹ جی او وی میں ہوا ہے مگر ابھی رضاکاروں کی خدمات حاصل نہیں کی گئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خون میں وٹامن ڈی کی صحتمند سطح ممکنہ طور پر کووڈ 19 کے مریضوں کو سائٹوکائین اسٹروم سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب مدافعتی نظام حد سے زیادہ متحرک ہوجاتا ہے اور جسم پر ہی حملہ کردیتا ہے۔

محققین نے وٹامن ڈی کا جائزہ کیوں لینا شروع کیا؟

وٹامن ڈی اس وقت بنتا ہے جب سورج کی روشنی جسم کو چھوتی ہے، جس کے متعدد فوائد ہیں جیسے ہڈیوں کے لےی یہ بہت ضروری ہے جبکہ یہ کچھ غذاؤں اور سپلیمنٹس سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

جب کووڈ 19 کی وبا پھیلنا شروع ہوئی تو نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر ویڈم بیکہم لوگوں کی مدد کرنا چاہتے تھے مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ ایسا کیسے ہوگا۔

انہوں نے بتایا 'ایسے متعدد اسرار ہیں جن کا علم اب تک نہیں ہوسکا ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر ملک میں شرح اموات مختلف کیوں ہے'۔

تو ان کی ٹیم نے چین، فرانس، جرمنی، اٹلی، ایران، جنوبی کوریا، اسپین، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکا کے ہسپتالوں اور طبی مراکز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔

کووڈ 19 سے ممالک میں مختلف شرح اموات کی ممکنہ وجوہات جیسے طبی خدمات کا معیار، آبادی کی اوسط عمر، ٹیسٹنگ کی شرح اور وائرس کی متعدد اقسام کا جائزہ لیا، مگر جواب نہیں مل سکا۔

وٹامن ڈی مدافعتی نظام کو ریگولیٹ کرنے میں کردار ادا کرتا ہے بشمول سائٹوکائین کے خطرناک اثرات کی پروڈکشن کو دبانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

1918 میں انفلوائنزا کی وبا کے دوران سورج کی روشنی اور وٹامن ڈی اور شرح اموات میں کمی کے درمیان تعلق کو دریافت کیا گیا تھا۔

تو جب کووڈ 19 کے مریضوں میں سائٹوکائین اسٹروم کا کردار سامنے آیا تو نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے محققین نے اپنی توجہ وٹامن ڈی کے کردار پر مرکوز کی۔

انہوں نے وٹامن ڈی اور کووڈ 19 کی سنگین شدت کے درمیان تعلق کا تخمینہ وٹامن ڈی کی کمی اور سی آر پی نامی ایک پروٹین سے لگایا جو کووڈ 19 کے سنگین حد تک بیمار افراد میں عام ہوتا ہے۔

یہ پروٹینز جگر میں ورم کے ردعمل میں بنتا ہے تاکہ بیماری کا نقصان کم کرسکے۔

محققین نے تخمینہ لگایا کہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار 17 فیصد مریضوں کو کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا ہوتا ہے جبکہ جسم میں وٹامن ڈی کی سطح والے مریضوں میں یہ شرح 14 فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی ہم نہیں جانتے کہ اس سے اموات کی شرح کتنی کم ہوتی ہے۔

دیگر تحقیقی رپورٹس میں وٹامن ڈی کا کردار

برطانیہ میں سائنسدانوں نے کووڈ 19 کے کیسز اور وٹامن ڈی کی اوسط سطح اور اموات کی شرح کی جانچ پڑتال 20 یورپی ممالک میں کی۔

انہوں نے دریافت کیا کہ جن ممالک کی آبادی میں وٹامن ڈی کی کمی زیادہ تھی وہاں کووڈ 19 کے کیسز اور اموات کی شرح بھی زیادہ تھی۔

اسی طرح امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے محققین نے تخمینہ لگایا کہ وٹامن ڈی کی 17 فیصد کمی کووڈ 19 کے سنگین شدت کا باعث بنتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ وٹامن ڈی اور کووڈ 19 کے سنگین کیسز کے درمیان تعلق موجود ہے۔

لوزیانا اور ٹیکساس کے سانسدانوں کی ایک تحقیق میں کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج 20 مریضوں کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا گیا کہ ان میں سے جن 11 مریضوں کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا، وہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار تھے۔

انڈونیشیا میں 780 کووڈ 19 کے مریضوں کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا گیا کہ جن زیادہ تر مریضوں کی ہلاکتیں ہوئیں، ان میں وٹامن ڈی کی سطح معمول سے کم تھی۔

آئرلینڈ میں بھی سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ جن ممالک میں وٹامن ڈی کی کمی زیادہ ہے وہاں کووڈ 19 سے ہلاکتیں بھی زیادہ ہیں۔

کووڈ 19 سے قبل وٹامن ڈی کے فوائد پر تحقیق

اگرچہ وٹامن ڈی اور کووڈ 19 کے درمیان تعلق پر تحقیق کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے، مگر دیگر تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ وٹامن ڈی سپلیمنٹس سے نظام تنفس کے انفیکشن کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔

محققین نے 1918 اور 1919 کے اسپیشنس فلو انفلوائنزا کی وبا کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا کہ جن مریضوں میں وٹامن ڈی کی سطح صحت مند سطح تھی، ان میں اموات کا امکان بھی کم تھا۔

وٹامن ڈی کی سطح اور مدافعتی نظام کے جان لیوا ردعمل کے درمیان تعلق پر بھی تحقیق ابتدائی مراحل میں ضرور ہے مگر حیران کن نہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی مدافعتی نظام کو دباتا نہیں بلکہ بہتر کرتا ہے، وٹامن ڈی سے مدافعتی خلیات کم ورم کا شکار ہوتے ہیں۔

اگرچہ وٹامن ڈی کی کمی اور کووڈ 19 کی شدت کو تو دریافت کیا گیا مگر ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس وٹامن ڈی کو دوبارہ معمول کی سطح پر لانا کس حد تک علاج میں مدد دے سکتا ہے۔

اسی طرح یہ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ جن افراد میں وٹامن ڈی صحت مند سطح پر ہوتا ہے، وہ اس وائرس سے بچ سکتے ہیں۔

ساؤتھ ایسٹرن فلپائن یونیورسٹی کے ایک محقق نے کووڈ 19 کے 212 مریضوں میں وٹامن ڈی کی سطح کی جانچ پڑتال کرکے دریافت کیا کہ اس کی کمی کے شکار افراد کی حالت نازک ہوتی ہے جبکہ زیادہ سطح والے مریضوں میں بیماری کی شدت معتدل ہوتی ہے۔

تحقیقی مقالے میں کہا گیا کہ وٹامن ڈی سپلیمنٹس ممکنہ طور پر کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج میں مدد دے سکتا ہے۔

برطانوی محققین کا کہنا تھا کہ ہم پہلے سے جاتنے ہیں کہ وٹامن ڈی صحت کے لیے مفید ہے مگر ابھی مزید شواہد کا انتظار ہے جو کووڈ 19 اور وٹامن ڈٰ کے درمیان تعلق کو ثابت کرسکیں۔

دوسری جانب ساڑھے 3 لاکھ کے قریب افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں جس میں 449 کووڈ 19 کے مریض بھی شامل تھے، میں وٹامن ڈی کی سطح اور اس بیماری کے خطرے کے درمیان تعلق دریافت نہیں کیا جاسکا۔

وٹامن ڈی کے افعال

خون کے ایک سادہ ٹیسٹ سے جسم میں وٹامن ڈی کی سطح کا تعین کیا جاسکتا ہپے۔

مانا جاتا ہے ک ہوٹامن ڈی سے خلیات کی نشوونما بہتر ہوتی ہے جبکہ ورم کم ہوتا ہے جبکہ کچھ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا کہ اس کی مدد سے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر کے مسائل کی روک تھام بھی کی جاسکتی ہے، مگر فی الحال نتائج واضح نہیں۔

وٹامن ڈی کو قدرتی طور پر کچھ غذاؤں جیسے دہی، انڈے اور مچھلی سمیت دیگر سے حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ سپلیمنٹس کی شکل میں بھی دستیاب ہوتا ہے۔

مگر وٹامن ڈی کی بہت زیادہ مقدار بھی جسم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے خون میں کیلشیئم جمع ہونے لگتا ہے جو قے، کمزوری، زیادہ پیشاب اور دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کا باعث بن سکتا ہے۔

ہارورڈ میڈیکل اسکول کی میڈیسین پروفیسر جوآن مینسن کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس کی زیادہ مقدار نقصان دہ ہے مگر وبا کے دوران اس کا زیادہ استعمال زیادہ دانشمندانہ قدم ہوگا۔

ان کی جانب سے ایک ٹرائل کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس میں دیکھا جائے گا کہ وٹامن ڈی سپلیمنٹس کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کا خطرہ یا شدت کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں یا نہیں۔

اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانچ پڑتال کریں گی کہ وٹامن ڈی سے قریب افراد سے بیماری کا خطرہ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے یا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں