لاہور: پولیس نے مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی کو گرفتار کرلیا

اپ ڈیٹ 07 نومبر 2020
خواجہ عمران نذیر ایک تقریب میں مریم نواز کے ہمراہ—فائل فوٹو: فیس بک
خواجہ عمران نذیر ایک تقریب میں مریم نواز کے ہمراہ—فائل فوٹو: فیس بک

لاہور میں پولیس نے مسلم لیگ (ن) لاہور کے جنرل سیکریٹری اور رکن پنجاب اسمبلی خواجہ عمران نذیر کو گرفتار کرلیا۔

خواجہ عمران نذیر کے زیر استعمال گاڑی ’ایل ای اے 8029‘ پولیس کو مریم نواز کی پیشی کے موقع پر نیب دفتر پر پتھراؤ سے متعلق مقدمے میں مطلوب تھی۔

خیال رہے کہ اگست میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی نیب دفتر میں پیشی کے موقع پر ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی تھی جس کے خلاف نیب افسران کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور کارکنان نامزد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب دفتر کے باہر ہنگامہ آرائی: مریم نواز کے خلاف مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل

پولیس نے مذکورہ گاڑی کو سیف سٹی اتھارٹی کی مدد سے ماڈل ٹاؤن لنک روڈ پر روکا جس میں رکن صوبائی اسمبلی سوار تھے۔

بعد ازاں پولیس خواجہ عمران نذیر اور مطلوبہ گاڑی کو تھانہ فیصل ٹاؤن لے گئی، جہاں سے چوہنگ پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔

گرفتاری پر رد عمل

رکن اسمبلی کی گرفتاری پر ردِعمل دیتے ہوئے مریم نواز نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ عمران نذیر نے کوئی جرم نہیں کیا، ان کی گرفتاری لاہور جلسے سے قبل پیشگی حملہ ہے جو ان کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دے گا۔

ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت پولیس تھانے میں موجود ہے اور گرفتار عمران نذیر کی رہائی کی کوششیں کی جارہی ہیں جس میں کوئی سیاسی یا قانونی آپشن نہیں چھوڑا جائے گا۔

دوسری جانب رکن صوبائی اسمبلی عمران نذیر نے اسے انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے نہیں، چاہے کچھ بھی کرلیں 13 دسمبر کو جلسہ ہوگا اور ضرور ہوگا۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ رواں برس 11 اگست کو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز انکوائری کے سلسلے میں پیش ہونے کے لیے پہنچیں تو نیب دفتر کے باہر پولیس اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان میں تصادم ہوا تھا۔

اس جھڑپ کے نتیجے میں سرکاری اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے اور پولیس نے بھی آنسو گیس کے شیل فائر کرنے کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے کارکنان پر پتھراؤ کیا، دونوں فریقین ایک دوسرے پر تصادم شروع کرنے کا الزام لگاتے رہے جبکہ پولیس نے درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا تھا۔

جس کے بعد پولیس نے ضلع کچہری کی عدالت میں 58 گرفتار کارکنان کو پیش کر کے ان کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے انہیں 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

مزید پڑھیں: نیب دفتر کے باہر ہنگامہ آرائی: کیپٹن (ر) صفدر سمیت 30 ملزمان کی ضمانت کی توثیق

11 اگست کی رات کو ہی چونگ پولیس نے نیب کی شکایت پر مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کے 300 کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس میں سے 187 افراد کو قانون نافذ کرنے والوں اور نیب عہدیداروں پر حملہ کرنے اور نیب کی عمارت کو نقصان پہنچانے پر مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ملزمان نے نیب کے روز مرہ کے دفتری امور کو تباہ کیا اور کارِ سرکار میں مداخلت کی، یہ شرپسندانہ حرکت مریم صفدر ان کے شوہر صفدر اعوان کی جانب سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی۔

ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جاتی عمرہ سے گاڑیوں میں پتھر بھر کے لائے گئے، مریم نواز کے اشتعال دلانے پر کارکنان کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جمع ہوئے جسے پولیس نے منتشر ہونے کا حکم دیا لیکن کارکنان نے اپنے رہنماؤں کی قیادت میں وردی میں ملبوس پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جس سے 13 اہلکار زخمی ہوئے۔

واقعے کے دوسرے ہی روز نیب کے دفتر میں پیشی کے موقع پر ہنگامہ آرائی کے سلسلے میں گرفتار کیے گیے مسلم لیگ (ن) 58 کارکنان کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا جبکہ 13 اگست کو ضلع کچہری کی عدالت نے مقدمے میں گرفتار کارکنان کی ضمانتیں منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں